ترجمہ: کنزالایمان
بیشک تمہارے لئے نشانی تھی دو گروہوں میں جو آپس میں بھڑ پڑے ایک جتھا اللہ کی راہ میں لڑتا اور دوسرا کافر کہ انہیں آنکھوں دیکھا اپنے سے دونا سمجھیں اور اللہ اپنی مدد سے زور دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیشک اس میں عقلمندوں کے لئے ضرور دیکھ کر سیکھنا ہے ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک تمہارے لئے ان دو گروہوں میں بڑی نشانی ہے جنہوں نے آپس میں جنگ کی۔ (اُن میں ) ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں لڑرہا تھا اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا جوکھلی آنکھوں سے مسلمانوں کو خود سے دگنا دیکھ رہے تھےاور اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے تائیدفرماتا ہے۔ بیشک اس میں عقلمندوں کے لئے بڑی عبرت ہے ۔
تفسیر: صراط الجنان
{قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰیَةٌ:
بیشک تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔} یہ آیت غزوۂ بدرکے
متعلق نازل ہوئی اور اس میں یہودیوں یا تمام کافروں یا مسلمانوں یا مذکورہ
بالا سب کو خطاب ہے کیونکہ غزوۂ بدر میں مسلمانوں اور کافروں سب کیلئے عبرت و
نصیحت تھی۔ غزوہ بدر 17رمضان2ہجری
بروز جمعہ ہوا۔ اس میں کفار تقریباً ایک ہزار تھے اور ان کے ساتھ بہت زیادہ سامان
جنگ تھاجبکہ مسلمان تین سو تیرہ (313) تھے اور ان میں سے بھی اکثر نہتے تھے،
مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے، چھ زرہیں ، آٹھ تلواریں اور ستر اونٹ تھے۔(جمل،
اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱ / ۳۷۶)اس کے باوجود مسلمانوں کو کامل فتح ہوئی اور
کفار کو شکستِ فاش، لہٰذا یہ فتح اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی نشانیوں میں سے بڑی نشانی ہے۔
{یَرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ: وہ انہیں خود سے دگنا
دیکھ رہے تھے۔}جنگِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی
کئی اعتبار سے مدد فرمائی ایک تو فرشتے نازل فرمائے ، دوسرا یہ ہوا کہ پہلے اللہ
تعالیٰ نے مسلمانوں کی نظروں میں کافروں کو اور کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کو
کم کرکے دکھایا تاکہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھے اور کافر مسلمانوں کو قلیل دیکھ کر
لڑائی کے لئے آگے بڑھیں اور مسلمانوں سے جنگ شروع کرنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہ
کریں۔ یہ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہوا پھر جب لڑائی شروع ہوگئی تو اِس آیت میں
مذکور واقعہ رونما ہوا۔(جمل
علی الجلالین، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳، ۱ / ۳۷۷)
کہ انہوں نے ان کو دگنا دیکھا۔اِ س جملے کے کئی معنیٰ کئے گئے ہیں۔
(1) کفار نے مسلمانوں کو خود سے دگنا دیکھا یعنی مسلمانوں کی تعداد کفار
کودو ہزار نظر آئی۔ (2) کفار نے مسلمانوں کو مسلمانوں کی تعداد سے دگنا
دیکھا یعنی مسلمانوں کی تعداد انہیں 626نظر آئی حالانکہ وہ 313تھے
۔(3) مسلمانوں نے کفار کو خود سے دگنا دیکھا یعنی مسلمانوں کو کفارکی تعداد
626 نظر آئی حالانکہ وہ ایک ہزار تھے۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت
الآیۃ: ۱۳، ۳ / ۱۵۷-۱۵۸)
بہر صورت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تائید تھی۔
اسی پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مدد سے جس کی چاہتا ہے تائید
فرماتا ہے خواہ اس کی تعداد قلیل ہی ہو اور سروسامان کی کتنی ہی کمی ہو۔
سورت کا تعارف
سورۂ اٰلِ عمران کا
تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ آلِ عمران مدینہ
طیبہ میں نازل ہوئی ہے۔ (خازن، ال عمران،۱ /
۲۲۸)
آل کا ایک معنی
’’اولاد‘‘ ہے اور اس سورت کے چوتھے اور پانچویں رکوع میں آیت نمبر33تا 54میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے والد عمران کی آل کی سیرت اور ان کے
فضائل کا ذکر ہے ،اس مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ آلِ عمران‘‘ رکھا گیا ہے۔
اس سورت کے مختلف فضائل
بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 3فضائل درجِ ذیل ہیں۔
(1) …حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن قرآنِ مجید اور اس پر عمل کرنے
والوں کو لایا جائے گا، ان کے آگے سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران ہوں گی۔ حضرت
نواس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ فرماتے ہیں کہ
رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں بیان فرمائیں جنہیں میں آج تک نہیں
بھولا، آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’یہ
دونوں سورتیں ایسی ہیں جیسے دو بادل ہوں یا دو ایسے سائبان ہوں جن کے درمیان روشنی
ہو یا صف باندھے ہوئے دو پرندوں کی قطاریں ہوں ، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں
کی شفاعت کریں گی۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳،
الحدیث:۲۵۳(۸۰۵))
(2) …حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو
شخص ر ات میں سورۂ آلِ عمر ان کی آخری آیتیں پڑھے گا تو اس کے لیے پوری رات عبادت
کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔(دارمی، کتاب فضائل
القرآن، باب فی فضل اٰل عمران،۲ / ۵۴۴، الحدیث:۳۳۹۶)
(3) … حضرت مکحول رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو
شخص جمعہ کے دن سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کرتا ہے تو رات تک فرشتے اس کے لئے
دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ (دارمی، کتاب
فضائل القرآن، باب فی فضل اٰل عمران،۲ / ۵۴۴، الحدیث:۳۳۹۷)
سورۂ آلِ عمران کی اپنے سے ماقبل
سورت ’’ بقرہ ‘‘ کے ساتھ کئی طرح سے مناسبت ہے، جیسے دونوں سورتوں کے شروع میں
قرآنِ پاک کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ سورۂ بقرہ میں قرآنِ پاک نازل ہونے کا
اِجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں قرآن مجیدکی آیات کی تقسیم بیان
کی گئی ہے۔ سورۂ بقرہ میں جہاد کا اجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں
غزوہ ٔ احد کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں جن شرعی احکام کو
اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے انہیں سورۂ آلِ عمران میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے۔سورۂ بقرہ میں یہودیوں کا ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں عیسائیوں کا
ذکر کیا گیا ہے۔(تناسق الدرر، سورۃ آل
عمران، ص۷۰-۷۳)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی ولادت، ان کی پرورش، جس جگہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا وہاں کھڑے ہو کر حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا اولاد کے لئے دعا کرنا، حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کی بشارت ملنا، اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات و واقعات کا بیان ہے۔ اس کے علاوہ اس سور ت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
(1) …اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت اور قرآن کی صداقت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول دین صرف اسلام ہے۔
(3) …حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شان کے بارے جھگڑنے والے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کو جھٹلانے والے اور قرآن مجید کا انکار کرنے والے نجران کے عیسائیوں سے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی ہونے والی گفتگو بیان کی گئی ہے۔
(4) …میثاق کے دن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے عہد لینے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(5) …مکہ مکرمہ اور خانۂ کعبہ کی فضیلت اور اس ا مت کے باقی تمام امتوں سے افضل ہونے کا بیان ہے۔
(6) …یہودیوں پر ذلت و خواری مُسَلَّط کئے جانے کا ذکر ہے۔
(7) …جہاد کی فرضیت اورسود کی حرمت سے متعلق شرعی احکام اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
(8) …غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کا تذکرہ اوراس سے حاصل ہونے والی عبرت و نصیحت کا بیان ہے۔
(9) …امت کی خیر خواہی میں مال خرچ کرنے،لوگوں پر احسان کرنے اور بخل نہ کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
(10) …شہیدوں کے زندہ ہونے،انہیں رزق ملنے اور ان کا اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہونے پر خوش ہو نے کا بیان ہے۔
(11) …اوراس سورت کے آخر میں زمین و آسمان اور ان میں موجود عجائبات اور اَسرار میں غورو فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،نیزجہاد پر صبر کرنے اور اسلامی سرحدوں کی نگہبانی کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔