Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 154 ≫ Translation ≫ Tafsir
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآىٕفَةً مِّنْكُمْۙ-وَ طَآىٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِؕ-یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍؕ-قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِؕ-یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَؕ-یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَاؕ-قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْۚ-وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(154)
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا:پھراس نے تم پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری ۔} غزوۂ احد میں تکالیف اٹھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلص مومنوں پر خاص کرم نوازی ہوئی، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لئے ان پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری جو صرف مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر ہی اتری، اس کی برکت سے مسلمانوں کے دلوں میں جو رعب اور ہیبت طاری تھا وہ ختم ہوگیا اور مسلمان سکون و اطمینان کی کَیْفِیَّت میں آگئے۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ روزِ اُحد نیند ہم پر چھا گئی ہم میدان میں تھے تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ جاتی تھی پھر اُٹھاتا تھا پھر چھوٹ جاتی تھی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب امنۃ نعاسًا، ۳ / ۱۹۵، الحدیث: ۴۵۶۲)
دوسری طرف منافقوں کاگروہ تھا جنہیں صرف اپنی جان کی فکر پڑی ہوئی تھی ،وہ اللہ تعالیٰ پر معاذ اللہ بدگمانیاں کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضور سید ُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ فرمائے گا یا یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہید ہوگئے لہٰذا اب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین باقی نہ رہے گا۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱ / ۳۲۵)
یہ صرف جاہلیت کے گمان تھے۔ پھر منافقین کے بارے میں فرمایا کہ یہ اپنے دلوں میں اپنا کفر ، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر بھروسہ نہ ہونا اور جہاد میں مسلمانوں کے ساتھ آنے پر افسوس کرنا چھپائے ہوئے ہیں ، ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وعدے معاذاللہ سچے نہیں ہیں لیکن یہ باتیں مسلمانوں کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتے۔ یہ کہتے ہیں کہ اگرہماری بھی کچھ چلتی ہوتی اور جنگ اُحدکے بارے میں ہمارا مشورہ مان لیا جاتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی بدگمانیوں اور بدکلامیوں کے رد میں فرمایا کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا تقدیر میں لکھا جاچکا تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے کیونکہ جیسے موت کا وقت مقرر ہے ایسے ہی موت کی جگہ بھی مُتَعَیَّن ہے۔ جس نے جہاں ،جیسے مرنا ہے، وہ وہاں ویسے ہی مرے گا۔ گھروں میں بیٹھ رہنا کچھ کام نہیں آتااورتقدیر کے سامنے ساری تدبیریں اور حیلے بے کار ہوجاتے ہیں۔ اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد میں پیش آنے والے واقعات کی حکمت بیان فرمائی کہ غزوہ اُحد میں جو کچھ ہواوہ اس لئے ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے دلوں کے اخلاص اورمنافقت آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں پوشیدہ ہے اسے سب کے سامنے کھول کر رکھ دے۔
آیت’’ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً‘‘ سے حاصل ہونے والا درس:
اس آیت میں مذکور واقعے میں بہت سے درس ہیں۔
(1)…آزمائش کے وقت ہی کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔
(2)… مسلمان صابر جبکہ منافق بے صبرا ہوتا ہے۔
(3)… مسلمان کو سب سے زیادہ فکر دین کی ہوتی ہے جبکہ منافق کو صرف اپنی جان کی فکر ہوتی ہے۔
(4)…مومن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتا ہے جبکہ منافق معمولی سی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
(5)…اللہ تعالیٰ کے وعدے پر کامل یقین رکھنا کامل ایمان کی نشانی ہے ۔
(6)…موت سے کوئی شخص فرار نہیں ہوسکتا، جس کی موت جہاں لکھی ہے وہاں آکر ہی رہے گی لہٰذا جہاد سے فرار مسلمان کی شان کے لائق نہیں۔
(7)…غزوۂ اُحد میں منافقین کے علاوہ جتنے مسلمان تھے وہ سب اللہ تعالیٰ کے پیارے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی کرم نوازی فرمائی۔