Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 159 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ-فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(159)
تفسیر: صراط الجنان
{فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ: تو اللہ کی کتنی بڑی رحمت ہے۔} اس آیت میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کا بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نرم دل، شفیق اور رحیم و کریم بنایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزاج میں اِس درجہ لُطف و کرم اور شفقت ورحمت پیدا فرمائی کہ غزوہ اُحد جیسے موقع پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے غضب کا اظہار نہ فرمایا حالانکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس دن کس قدر اَذِیَّت و تکلیف پہنچی تھی اور اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت مزاج ہوتے اور میل برتاؤ میں سختی سے کام لیتے تو یہ لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دور ہوجاتے۔ تو اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ ان کی غلطیوں کو معاف کردیں اور ان کیلئے دعائے مغفرت فرمادیں تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سفارش پر اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف فرمادے۔
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کی ایک جھلک :
حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمانہ کی تو کیا شان ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تورات و انجیل میں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ عالیہ کا ذکر فرمایا تھا: چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب اللہ تعالیٰ نے زید بن سعنہ کی ہدایت کا ارادہ فرمایا تو زید بن سعنہ نے کہا: میں نے جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے روئے انور کی زیارت کی تو اسی وقت آپ میں نبوت کی تمام علامات پہچان لیں ،البتہ دو علامتیں ایسی تھیں جن کی مجھے خبر نہ تھی(کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہیں یا نہیں ) ایک یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور دوسری یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جتنا زیادہ جہالت کا برتاؤ کیا جائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔ میں موقع کی تلاش میں رہا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم دیکھ سکوں۔ ایک دن نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے حجروں سے باہر تشریف لائے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھے کہ دیہاتی جیسا ایک شخص اپنی سواری پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی :فلاں قبیلے کی بستی میں رہنے والے قحط اور خشک سالی کی مصیبت میں مبتلا ہیں ،میں نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ اسلام قبول کر لو تو تمہیں کثیر رزق ملے گا۔انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ، یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ڈر ہے کہ جس طرح وہ رزق ملنے کی امید پر اسلام میں داخل ہوئے کہیں وہ رزق نہ ملنے کی وجہ سے اسلام سے نکل نہ جائیں۔ اگر ممکن ہو تو ان کی طرف کوئی ایسی چیز بھیج دیں جس سے ان کی مدد ہو جائے۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شخص کی طرف دیکھا اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو دکھایا تو انہوں نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اس میں سے کچھ باقی نہیں بچا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں : میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب ہوا اور کہا:اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کیاآپ ایک مقررہ مدت تک فلاں قبیلے کے باغ کی معین مقدار میں کھجوریں مجھے بیچ سکتے ہیں ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے یہودی !ایسے نہیں ، میں ایک مقررہ مدت تک اور مُعَیَّن مقدار میں کھجوریں تمہیں بیچوں گا لیکن کسی باغ کو خاص نہیں کروں گا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں : میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ میں نے ایک مقررہ مدت تک معین مقدار میں کھجوروں کے بدلے 80مثقال سونا حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دے دیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ سونا اس شخص کو دے کر فرمایا ’’یہ سونا ان لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو اورا س کے ذریعے ان کی مدد کرو ۔
زید بن سعنہ کہتے ہیں،جب وہ مدت پوری ہونے میں دویا تین دن رہ گئے تو میں نے مسجد میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دامنِ اقدس پکڑ کر تیز نگاہ سے دیکھتے ہوئے یوں کہا: اے محمد! میرا حق ادا کرو ۔ اے عبدالمطلب کے خاندان والو! تم سب کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگ ہمیشہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں دیر لگایا کرتے ہو اورٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ اس دوران میں نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں ان کے چہرے پر گھوم رہی تھیں، انہوں نے جلال بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے فرمایا : اے دشمن خدا ! کیا تم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ایسی بات اور ایسی حرکت کر رہے ہو!اس خدا کی قسم جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا،اگر مجھے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لحاظ نہ ہو تا تو میں ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سکون انداز میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف دیکھنے لگے اور مسکرائے ،پھر ارشاد فرمایا’’ہم دونوں کو ا س کے علاوہ چیز کی زیادہ ضرورت تھی کہ تم مجھے اچھے طریقے سے ادائیگی کا کہتے اور اسے اچھے انداز میں مطالبہ کرنے کا کہتے ۔ اے عمر ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،تم اسے اس کا حق دے دو اور بیس صاع کھجوریں ا س کے حق سے زیادہ دے دینا ۔
زید بن سعنہ کہتے ہیں :(جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھے زیادہ کھجوریں دیں ) تو میں نے کہا : اے عمر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، مجھے زیادہ کھجوریں کیوں دی جا رہی ہیں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’مجھے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا ہے کہ جو میں نے تمہیں ڈانٹا ا س کے بدلے اتنی کھجوریں تمہیں زیادہ دے دوں۔ میں نے کہا :اے عمر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’نہیں۔ میں نے کہا: میں یہودیوں کا عالم زید بن سعنہ ہوں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’پھر تم نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کو جو باتیں کہیں اور ان کے ساتھ جو حرکت کی وہ کیوں کی؟میں نے کہا: میں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہی آپ میں نبوت کی تمام علامات پہچان لی تھیں ، البتہ ان دو علامتوں کو دیکھنا باقی تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جتنا زیادہ جہالت کا برتاؤ کیا جائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔ بے شک میں نے یہ علامتیں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں پا لی ہیں ، تو اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، آپ گواہ ہو جائیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوا ۔ میں بہت مالدار ہوں ،آپ گواہ ہو جائیں کہ میں نے اپنا آدھا مال تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت پر صدقہ کر دیا۔پھر حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس کے بندے اور رسول ہیں۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم، ذکر اسلام زید بن سعنۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۷۹۲، الحدیث: ۶۶۰۶)
{وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ:اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔ } یعنی اہم کاموں میں ان سے مشورہ بھی لیتے رہیں کیونکہ اِس میں اِن کی دِلداری بھی ہے اور عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہوجائے گا اور آئندہ امت اِس سے نفع اُٹھاتی رہے گی،پھرجب مشورے کے بعد آپ کسی بات کا پختہ ارادہ کرلیں تو اپنے کام کو پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی مدد کرتا اور انہیں ا س چیز کی طرف ہدایت دیتا ہے جو ان کے لئے بہتر ہو ۔
مشورہ اور تَوَکُّل کے معنی اور توکل کی ترغیب:
مشورہ کے معنی ہیں کسی معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔ مشورہ لینے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ’’مشورے کے بعد جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کا پختہ ارادہ کرلیں تو اسی پر عمل کریں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کریں۔ توکل کے معنی ہیں اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی پر اعتماد کرنا اور کاموں کو اُس کے سپرد کردینا۔ مقصود یہ ہے کہ بندے کا اعتماد تمام کاموں میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ہونا چاہئے ، صرف اسباب پر نظر نہ رکھے ۔
حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ کرے تو ہر مشکل میں اللہ تعالیٰ اسے کافی ہو گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو دنیا پر بھروسہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا کے سپرد فرما دیتا ہے ۔(معجم الاوسط، باب الجیم، من اسمہ جعفر، ۲ / ۳۰۲، الحدیث: ۳۳۵۹)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جیسا چاہیے ویسا توکل کرو تو تم کو ایسے رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتے ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب فی التوکل علی اللہ.الحدیث: ۲۳۵۱)