ترجمہ: کنزالایمان
وہ جو کہتے ہیں اللہ نے ہم سے قرار کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک ایسی قربانی کا حکم نہ لائے جسے آ گ کھائے تم فرمادو مجھ سے پہلے بہت رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں اور یہ حکم لے کر آئے جو تم کہتے ہو پھر تم نے انہیں کیوں شہید کیا اگر سچے ہو۔
ترجمہ: کنزالعرفان
وہ لوگ جو کہتے ہیں (کہ) اللہ نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہم کسی رسول کی اس وقت تک تصدیق نہ کریں جب تک وہ ایسی قربانی پیش نہ کرے جسے آگ کھاجائے ۔ اے حبیب! تم فرمادو(کہ) بیشک مجھ سے پہلے بہت سے رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں اور وہی (معجزات) لے کر آئے جو تم نے کہے تھے پھر اگر تم سچے ہوتو تم نے انہیں کیوں شہید کیا؟۔
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ
قَالُوْا: وہ جو کہتے ہیں۔}اس
آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ
سے کہا تھا کہ ہم سے
توریت میں عہد لیا گیا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا جو شخص ایسی قربانی پیش نہ
کرسکے جسے آسمان سے سفید آگ اتر کر کھائے ،اس پر ہم ہرگز ایمان نہ لائیں۔ اس پر یہ
آیت نازل ہوئی۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ:۱۸۳،۱ / ۵۲۳)
اور اُن کے اِس خالص جھوٹ
اور بہتان کو باطل قرار دیا گیا کیونکہ اِس شرط کا توریت میں نام و نشان بھی نہیں
ہے اور ظاہر ہے کہ نبی کی تصدیق کے لیے معجزہ کافی ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو، جب نبی
نے کوئی معجزہ دکھادیا تواس کے سچا ہونے پر دلیل قائم ہوگئی ، اب اُس کی تصدیق
کرنا اور اُس کی نبوت کو ماننا لازم ہوگیا ۔ نبوت کی صداقت ثابت ہوجانے کے بعد پھر
کسی خاص معجزے کا اصرارکرنا حقیقت میں نبی کی تصدیق کا انکار ہے۔پھر یہ بات بھی
بیان فرمادی کہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبعض اوقات وہی معجزات لے کر آئے جس کا تم نے ان سے مطالبہ کیا، جیسے
بعض انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے قربانی لانے والا
معجزہ بھی دکھا دیا لیکن اس کے باوجود تم نے انہیں نہ مانا بلکہ بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کردیا ،
اگر تم سچے تھے تو ان کو کیوں شہید کیا؟ تمہارا سابقہ کردار اس بات کی گواہی
دیتاہے کہ تمہارا مقصد صرف حیلے بہانے کر کے اسلام قبول کرنے سے بچنا اور اپنے
جاہلوں کو ورغلانا ہے ورنہ دلیل نام کی کوئی چیز تمہارے پاس نہیں۔
اوپر کی پوری گفتگو سے
ایک بہت مفید بات سامنے آتی ہے کہ جب کوئی چیز کسی معقول دلیل سے ثابت ہو جائے تو
اسے مان لینا لازم ہے۔ دلیل سے ثابت ہوجانے کے بعد خواہ مخواہ مخصوص قسم کی دلیل
کا مطالبہ کرنا یہودیوں کا کام ہے اور اس میں بھی ایسے لوگوں کامقصد ماننا نہیں
ہوتا بلکہ مفت کی بحث کرنا ہوتا ہے۔ جیسے مسلمانوں میں رائج بہت سے معمولات ایسے
ہیں جو معقول شرعی دلیل سے ثابت ہیں لیکن بعض لوگوں کا خواہ مخواہ اِصرار ہوتا ہے
کہ نہیں ، اسے حضور سید المرسلین صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے سے ثابت کرو، اسے بخاری سے ثابت کرو۔ یہ
طرزِ عمل سراسر جاہلانہ ہے اور ایسے لوگوں کو سمجھانا بے فائدہ ہوتا ہے۔
سورت کا تعارف
سورۂ اٰلِ عمران کا
تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ آلِ عمران مدینہ
طیبہ میں نازل ہوئی ہے۔ (خازن، ال عمران،۱ /
۲۲۸)
آل کا ایک معنی
’’اولاد‘‘ ہے اور اس سورت کے چوتھے اور پانچویں رکوع میں آیت نمبر33تا 54میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے والد عمران کی آل کی سیرت اور ان کے
فضائل کا ذکر ہے ،اس مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ آلِ عمران‘‘ رکھا گیا ہے۔
اس سورت کے مختلف فضائل
بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 3فضائل درجِ ذیل ہیں۔
(1) …حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن قرآنِ مجید اور اس پر عمل کرنے
والوں کو لایا جائے گا، ان کے آگے سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران ہوں گی۔ حضرت
نواس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ فرماتے ہیں کہ
رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں بیان فرمائیں جنہیں میں آج تک نہیں
بھولا، آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’یہ
دونوں سورتیں ایسی ہیں جیسے دو بادل ہوں یا دو ایسے سائبان ہوں جن کے درمیان روشنی
ہو یا صف باندھے ہوئے دو پرندوں کی قطاریں ہوں ، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں
کی شفاعت کریں گی۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳،
الحدیث:۲۵۳(۸۰۵))
(2) …حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو
شخص ر ات میں سورۂ آلِ عمر ان کی آخری آیتیں پڑھے گا تو اس کے لیے پوری رات عبادت
کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔(دارمی، کتاب فضائل
القرآن، باب فی فضل اٰل عمران،۲ / ۵۴۴، الحدیث:۳۳۹۶)
(3) … حضرت مکحول رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو
شخص جمعہ کے دن سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کرتا ہے تو رات تک فرشتے اس کے لئے
دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ (دارمی، کتاب
فضائل القرآن، باب فی فضل اٰل عمران،۲ / ۵۴۴، الحدیث:۳۳۹۷)
سورۂ آلِ عمران کی اپنے سے ماقبل
سورت ’’ بقرہ ‘‘ کے ساتھ کئی طرح سے مناسبت ہے، جیسے دونوں سورتوں کے شروع میں
قرآنِ پاک کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ سورۂ بقرہ میں قرآنِ پاک نازل ہونے کا
اِجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں قرآن مجیدکی آیات کی تقسیم بیان
کی گئی ہے۔ سورۂ بقرہ میں جہاد کا اجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں
غزوہ ٔ احد کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں جن شرعی احکام کو
اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے انہیں سورۂ آلِ عمران میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے۔سورۂ بقرہ میں یہودیوں کا ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں عیسائیوں کا
ذکر کیا گیا ہے۔(تناسق الدرر، سورۃ آل
عمران، ص۷۰-۷۳)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی ولادت، ان کی پرورش، جس جگہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا وہاں کھڑے ہو کر حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا اولاد کے لئے دعا کرنا، حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کی بشارت ملنا، اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات و واقعات کا بیان ہے۔ اس کے علاوہ اس سور ت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
(1) …اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت اور قرآن کی صداقت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول دین صرف اسلام ہے۔
(3) …حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شان کے بارے جھگڑنے والے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کو جھٹلانے والے اور قرآن مجید کا انکار کرنے والے نجران کے عیسائیوں سے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی ہونے والی گفتگو بیان کی گئی ہے۔
(4) …میثاق کے دن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے عہد لینے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(5) …مکہ مکرمہ اور خانۂ کعبہ کی فضیلت اور اس ا مت کے باقی تمام امتوں سے افضل ہونے کا بیان ہے۔
(6) …یہودیوں پر ذلت و خواری مُسَلَّط کئے جانے کا ذکر ہے۔
(7) …جہاد کی فرضیت اورسود کی حرمت سے متعلق شرعی احکام اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
(8) …غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کا تذکرہ اوراس سے حاصل ہونے والی عبرت و نصیحت کا بیان ہے۔
(9) …امت کی خیر خواہی میں مال خرچ کرنے،لوگوں پر احسان کرنے اور بخل نہ کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
(10) …شہیدوں کے زندہ ہونے،انہیں رزق ملنے اور ان کا اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہونے پر خوش ہو نے کا بیان ہے۔
(11) …اوراس سورت کے آخر میں زمین و آسمان اور ان میں موجود عجائبات اور اَسرار میں غورو فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،نیزجہاد پر صبر کرنے اور اسلامی سرحدوں کی نگہبانی کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔