Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 195 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَاۤ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰىۚ-بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۚ-فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ(195)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ: تو ان کے رب نے ان کی دعاقبول فرمالی۔}ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں وہ عطا کر دیا جو انہوں نے مانگا اور ان سے فرمایا کہ اے ایمان والو ! میں تم میں سے کسی مرد یا عورت کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا بلکہ ا س عمل کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۳۳۸)
یہاں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی۔اس کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں دعا میں پانچ بار ’’رَبَّنَا‘‘ آیا ہے اور اس کے بعد دعا کی قبولیت کی بات ہورہی ہے، تو اگر دعا میں پانچ مرتبہ ’’یَا رَبَّنَا‘‘ کہہ دیا جائے تو قبولیت ِدعا کی امید ہے۔
{بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ:تم آپس میں ایک ہی ہو۔}اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم سب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرات حواء رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی اولاد ہی ہو ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اطاعت پر ثواب ملنے اور نافرمانی پر سزا ملنے میں تم سب ایک ہی ہو ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۳۳۸)
{فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا:پس جنہوں نے ہجرت کی۔ }ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت کے لئے اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور وہ مشرکوں کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں کے سبب اپنے ان گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے جہاں وہ پلے بڑھے تھے اور مجھ پر ایمان لانے اور میری وحدانیت کا اقرار کرنے کی وجہ سے انہیں مشرکوں کی طرف سے ستایا گیااورانہوں نے میری راہ میں کافروں کے ساتھ جہاد کیا اور شہیدکردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے لئے اجر ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔ (روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۲ / ۱۵۱)
ہجرت اور جہاد سے متعلق احادیث:
اس آیت میں ہجرت اور جہاد کے ثواب کابیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں ہجرت اور جہاد سے متعلق 3 احادیث ذکر کرتے ہیں ،چنانچہ
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اورہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ، تو جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہی ہے اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسی چیز کی طرف ہے جس کی جانب اس نے ہجرت کی۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب ما جاء انّ الاعمال بالنیۃ والحِسبۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۴، الحدیث: ۵۴)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جسے راہِ خدا میں کوئی زخم آئے تو وہ قیامت کے دن ا س طرح آئے گا کہ ا س کے زخم سے سرخ رنگ کا خون بہہ رہا ہو گا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔(بخاری، کتاب الذبائح والصید۔۔۔ الخ، باب المسک، ۳ / ۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)
حضرت شداد بن ہادرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک اعرابی حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے سر تسلیم خَم کیا، پھر عرض کی : میں ہجرت کر کے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہنا چاہتاہوں۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اسے ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور)اپنے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس (کے رہن سہن وغیرہ کا انتظام کرنے ) کے بارے میں کچھ حکم فرمایا۔ جب ایک غزوہ میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چند قیدی بطور غنیمت حاصل ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان قیدیوں کوتقسیم فرما دیا اور اس اعرابی کا حصہ نکال کر صحابۂ کرام رَضِی َاللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سپرد کر دیا۔ وہ اعرابی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے پیچھے پہرہ دیاکرتے تھے(تاکہ دشمن اچانک حملہ نہ کر دے) ۔ جب وہ (پہرے کی جگہ سے) آیا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ا س کا حصہ اسے دیا۔اس نے عرض کی:یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے فرمایا’’ یہ تمہارا حصہ ہے ،جو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عطافرمایا ہے۔وہ اعرابی اپنے حصے کو لے کر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگا ہ میں حاضرہوئے اور عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ کیا ہے ؟آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’میں نے یہ تمہارا حصہ نکالا ہے ۔اس نے عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،میں نے مال کے حصول کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی نہیں کی بلکہ میں نے تو اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کی ہے تاکہ مجھے یہاں گلے پر تیر لگے اور میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہوجاؤں۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر تم (اپنی بات میں مخلص اور) سچے ہوتو اللہ تعالیٰ تمہاری یہ خواہش ضرورپوری فرمائے گا ۔اس کے بعد لوگ کچھ دیر کے لئے ٹھہرے رہے، پھر دشمن کے ساتھ جہاد کے لئے اٹھے تو(جہاد کے دوران) کچھ آدمی اُس اعرابی کو اِس حال میں سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لائے کہا اسے وہیں تیر لگا ہو اتھا جہاں تیر لگنے کااس نے اشارہ کیا تھا۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا یہ وہی شخص ہے ؟عرض کیا گیا: جی ہاں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ یہ اپنی بات میں مخلص تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش پوری فرمادی۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے(برکت کے لئے ) اسے اپنے جبہ مبارکہ میں کفن دیا ،پھر اسے اپنے سامنے رکھا اور اس کا جنازہ پڑھایا۔اس کی نماز جنازہ میں جو دعا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمائی وہ یہ تھی
’’اَللّٰھُمَّ ھَذَاعَبْدُکَ خَرَجَ مُھَاجِرًا فِیْ سَبِیْلِکَ فَقُتِلَ شَھِیْدًااَنَاشَھِیْدٌ عَلٰی ذٰلِک‘‘
اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، یہ تیرا وہی بندہ ہے جس نے تیری راہ میں ہجرت کی اور شہید ہوگیا اور میں اس چیز کا گواہ ہوں۔(نسائی، کتاب الجنائز، الصلاۃ علی الشہداء، ص۳۳۰، الحدیث: ۱۹۵۰)