Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 55 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(55)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰى: جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ۔} اس آیتِ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار باتیں فرمائی گئیں : (1) تَوَفّٰی یعنی پوری عمر کو پہنچانا،(2)اپنی طرف اٹھالینا، (3)کافروں سے نجات دینا، (4) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیروکاروں کو غلبہ دینا۔ اب ہم ان کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
پہلی بات تَوَفّٰی ہے۔مرزائیوں نے آیتِ پاک کے ان الفاظ کوبنیاد بنا کر یہود و نصاریٰ کی پیروی میں حضرت عیسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا دعویٰ کیا اور یہ سراسر غلط ہے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تَوَفّٰی کا حقیقی معنی ہے ’’پورا کرنا ‘‘ جیسے قرآن پاک میں ہے:
وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم:۳۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ابراہیم جو پورے احکام بجا لایا۔
اور یہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ا س کا مجازی معنی ہے اور جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں لیا جا سکتا، اور یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں کہ تَوَفّٰی کا معنی موت کیا جائے بلکہ ا س کا حقیقی معنی مراد لینے پر واضح قرائن بھی موجود ہیں اور وہ قرائن احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قربِ قیامت میں واپس تشریف لائیں گے۔ لہٰذا اس آیت سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ دوسرے نمبر پر بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا ‘‘ ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاچکے ہیں۔ صرف یہ فرمایا ہے کہ’’اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا۔ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔ اب یہ بات کہ آیت میں تَوَفّٰی یعنی وفات دینے کاپہلے تذکرہ ہے اور اٹھائے جانے کا بعد میں اور چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اٹھائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کی وفات بھی پہلے ثابت ہوگئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں ’’مُتَوَفِّیْكَ‘‘ اور ’’رَافِعُكَ‘‘کے درمیان میں ’’واؤ‘‘ ہے اور عربی زبان میں ’’واؤ‘‘ ترتیب کیلئے نہیں آتی کہ جس کا مطلب یہ نکلے کہ وفات پہلے ہوئی اور اٹھایا جانا بعد میں ، جیسے قرآن پاک میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا گیا:
وَ اسْجُدِیْ وَ ارْكَعِیْ(آلِ عمران:۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور سجدہ اور رکوع کر۔
یہاں سجدے کا پہلے تذکرہ ہے اور رکوع کا بعد میں ، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رکوع بعد میں کرتی تھیں اور سجدہ پہلے ، ہر گز نہیں۔ لہٰذا جیسے یہاں ’’واؤ‘‘ کا آنا ترتیب کیلئے نہیں ہے ایسے ہی مذکورہ بالا آیت میں ’’واؤ‘‘ترتیب کیلئے نہیں ہے۔
دوسری بات حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اٹھایا جانا ہے۔ فرمایا گیا کہ ہم تمہیں بغیر موت کے اٹھا کر آسمان پر عزت کی جگہ اور فرشتوں کی جائے قرار میں پہنچا دیں گے ۔رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میری امت پر خلیفہ ہو کر نازل ہوں گے، صلیب توڑیں گے ،خنزیروں کو قتل کریں گے، چالیس سال رہیں گے، نکاح فرمائیں گے، اولاد ہوگی اور پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہوگا۔ وہ امت کیسے ہلاک ہو جس کا اوّل میں ہوں اور آخر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور وسط میں میرے اہلِ بیت میں سے حضرت مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُُ۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۱۶۳، ابن عساکر، ذکر من اسمہ عیسیٰ، عیسی بن مریم، ۴۷ / ۵۲۲)
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام منارۂ شرقی دمشق پر نازل ہوں گے۔ (مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ، ص۱۵۶۸، الحدیث: ۱۱۰(۲۹۳۷))
یہ بھی حدیث میں ہے کہ ’’حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔ (الوفاء باحوال المصطفٰی، ابواب بعثہ وحشرہ وما یجری لہ صلی اللہ علیہ وسلم، الباب الثانی فی حشر عیسی بن مریم مع نبینا، ص۳۲۵،الجزء الثانی)
تیسری بات کہ کفار سے نجات دلاؤں گا۔اس طرح کہ کفار کے نرغے سے تمہیں بچا لوں گا اور وہ تمہیں سولی نہ دے سکیں گے۔
چوتھی بات ماننے والوں کومنکروں پر غلبہ دینا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ماننے والوں سے مراد ہے ’’ان کو صحیح طور پر ماننے والے‘‘ اور صحیح ماننے والے یقینا صرف مسلمان ہیں کیونکہ یہودی تو ویسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دشمن ہیں اور عیسائی انہیں خدا مانتے ہیں تو یہ ’’ماننا ‘‘تو بدترین قسم کا ’’نہ ماننا‘‘ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کو معبود نہ مانو اور یہ کہیں ، نہیں ، ہم توآپ کو بھی معبود مانیں گے۔