ترجمہ: کنزالایمان
اے کتاب والو ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو توریت و انجیل تو نہ اتری مگر ان کے بعد تو کیا تمہیں عقل نہیں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اے اہلِ کتاب ! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ حالانکہ توریت اور انجیل تو اتری ہی ان کے بعد ہے ۔تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
تفسیر: صراط الجنان
{لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ:
تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ } نجران کے عیسائیوں اور
یہودیوں کے علماء میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے متعلق مناظرہ ہوا۔ یہودی کہتے تھے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام
یہودی تھےلہٰذا ہمارا دین بڑا ہے۔ عیسائی کہتے تھے، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام عیسائی
تھے لہٰذا ہمارا دین بڑا ہے۔ آخر کار ان دونوں نے سرکارِ عالی وقار صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو
اپنا حاکم بنایا، اس پر آیت اتری، (خازن، اٰل
عمران، تحت الآیۃ:
۶۵، ۱ / ۲۶۰)
جس
میں ان بیوقوفوں کی انتہائی جہالت ظاہر فرمائی گئی کہ یہودیت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور نصرانیت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جاری ہوئیں اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان دونوں بزرگوں سے کئی سو سال پہلے
ہوئے ہیں تو وہ یہودی یا عیسائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ چنانچہ فرمایا: اے اہلِ کتاب
!تم ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو کہ وہ یہودی
یا عیسائی تھے؟ حالانکہ توریت اور انجیل تو اتری ہی ان کے بعد ہے ۔تو کیا تمہیں
اتنی بھی عقل نہیں ؟ کہ کئی سوسال پہلے والا شخص بعد والے گروہ میں شامل نہیں
ہوسکتا ۔
بزرگوں
پر ہونے والے اعتراضات کو دور کرنا اللہ
تعالیٰ کی سنت ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں سے لوگوں کے الزام
دور کرنا سنت ِ الٰہیہ ہے، ان کی عظمت کی حمایت کرنا محبوب چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت سلیمان اور دیگر بہت سے انبیاء
کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر
ہونے والے
اعتراضات کو دور فرمایا ہے۔
اس
آیتِ مبارکہ سے علمِ تاریخ کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے کہ یہاں تاریخ پر ہی حقیقت
کا مدار ہے۔فی زمانہ علمِ تاریخ کی ویسے بھی بہت ضرورت ہے کیونکہ ہمارے زمانے کے
بہت سے گمراہ لوگ تاریخ کو مسخ کرکے ہی لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ یونہی علمِ
اَسماء الرِّجال حقیقتاً تاریخ پر ہی دارومدار رکھتا ہے نیز قوموں کے عروج و زوال
اور اس کے اسباب تاریخ ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ اپنے طور پر ہر ایک کو تاریخ
کی اجازت نہیں کیونکہ موجودہ تاریخ میں بہت سی گمراہ کن باتیں شامل ہیں۔ بے علم
آدمی پڑھے گا تو مارا جائے گا۔ کسی مُستَنَد عالم کی رہنمائی میں تاریخ پڑھنی
چاہیے۔
سورت کا تعارف
سورۂ اٰلِ عمران کا
تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ آلِ عمران مدینہ
طیبہ میں نازل ہوئی ہے۔ (خازن، ال عمران،۱ /
۲۲۸)
آل کا ایک معنی
’’اولاد‘‘ ہے اور اس سورت کے چوتھے اور پانچویں رکوع میں آیت نمبر33تا 54میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے والد عمران کی آل کی سیرت اور ان کے
فضائل کا ذکر ہے ،اس مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ آلِ عمران‘‘ رکھا گیا ہے۔
اس سورت کے مختلف فضائل
بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 3فضائل درجِ ذیل ہیں۔
(1) …حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قیامت کے دن قرآنِ مجید اور اس پر عمل کرنے
والوں کو لایا جائے گا، ان کے آگے سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران ہوں گی۔ حضرت
نواس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ فرماتے ہیں کہ
رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں بیان فرمائیں جنہیں میں آج تک نہیں
بھولا، آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’یہ
دونوں سورتیں ایسی ہیں جیسے دو بادل ہوں یا دو ایسے سائبان ہوں جن کے درمیان روشنی
ہو یا صف باندھے ہوئے دو پرندوں کی قطاریں ہوں ، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں
کی شفاعت کریں گی۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳،
الحدیث:۲۵۳(۸۰۵))
(2) …حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو
شخص ر ات میں سورۂ آلِ عمر ان کی آخری آیتیں پڑھے گا تو اس کے لیے پوری رات عبادت
کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔(دارمی، کتاب فضائل
القرآن، باب فی فضل اٰل عمران،۲ / ۵۴۴، الحدیث:۳۳۹۶)
(3) … حضرت مکحول رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو
شخص جمعہ کے دن سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کرتا ہے تو رات تک فرشتے اس کے لئے
دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ (دارمی، کتاب
فضائل القرآن، باب فی فضل اٰل عمران،۲ / ۵۴۴، الحدیث:۳۳۹۷)
سورۂ آلِ عمران کی اپنے سے ماقبل
سورت ’’ بقرہ ‘‘ کے ساتھ کئی طرح سے مناسبت ہے، جیسے دونوں سورتوں کے شروع میں
قرآنِ پاک کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ سورۂ بقرہ میں قرآنِ پاک نازل ہونے کا
اِجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں قرآن مجیدکی آیات کی تقسیم بیان
کی گئی ہے۔ سورۂ بقرہ میں جہاد کا اجمالی طور پر ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں
غزوہ ٔ احد کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں جن شرعی احکام کو
اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے انہیں سورۂ آلِ عمران میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا
گیا ہے۔سورۂ بقرہ میں یہودیوں کا ذکر ہے اور سورۂ آلِ عمران میں عیسائیوں کا
ذکر کیا گیا ہے۔(تناسق الدرر، سورۃ آل
عمران، ص۷۰-۷۳)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں حضرت مریمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی ولادت، ان کی پرورش، جس جگہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا وہاں کھڑے ہو کر حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا اولاد کے لئے دعا کرنا، حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کی بشارت ملنا، اور حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات و واقعات کا بیان ہے۔ اس کے علاوہ اس سور ت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
(1) …اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت اور قرآن کی صداقت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول دین صرف اسلام ہے۔
(3) …حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شان کے بارے جھگڑنے والے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کو جھٹلانے والے اور قرآن مجید کا انکار کرنے والے نجران کے عیسائیوں سے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی ہونے والی گفتگو بیان کی گئی ہے۔
(4) …میثاق کے دن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے عہد لینے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(5) …مکہ مکرمہ اور خانۂ کعبہ کی فضیلت اور اس ا مت کے باقی تمام امتوں سے افضل ہونے کا بیان ہے۔
(6) …یہودیوں پر ذلت و خواری مُسَلَّط کئے جانے کا ذکر ہے۔
(7) …جہاد کی فرضیت اورسود کی حرمت سے متعلق شرعی احکام اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
(8) …غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کا تذکرہ اوراس سے حاصل ہونے والی عبرت و نصیحت کا بیان ہے۔
(9) …امت کی خیر خواہی میں مال خرچ کرنے،لوگوں پر احسان کرنے اور بخل نہ کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
(10) …شہیدوں کے زندہ ہونے،انہیں رزق ملنے اور ان کا اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل ہونے پر خوش ہو نے کا بیان ہے۔
(11) …اوراس سورت کے آخر میں زمین و آسمان اور ان میں موجود عجائبات اور اَسرار میں غورو فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،نیزجہاد پر صبر کرنے اور اسلامی سرحدوں کی نگہبانی کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔