Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 7 ≫ Translation ≫ Tafsir
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ ﳘ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ﳕ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ-كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاۚ-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ(7)
تفسیر: صراط الجنان
{اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ: صاف معنیٰ رکھنے والی آیتیں۔} قرآن پاک میں دو طرح کی آیات ہیں :
(1)… مُحْکَمْ، یعنی جن کے معانی میں کوئی اِشْتِبَاہ نہیں بلکہ قرآن سمجھنے کی اَہلیت رکھنے والے کو آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔
(2)… مُتَشَابِہْ، یعنی وہ آیات جن کے ظاہری معنیٰ یا تو سمجھ ہی نہیں آتے جیسے حروفِ مقطعات ،یعنی بعض سورتوں کے شروع میں آنے والے حروف جیسے سورۂ بقرہ کے شروع میں ’’الٓمّٓ‘‘ہے اور یا متشابہ وہ ہے جس کے ظاہری معنیٰ سمجھ تو آتےہیں لیکن وہ مراد نہیں ہوتے جیسے اللہ تعالیٰ کے ’’یَدْ‘‘یعنی ’’ہاتھ‘‘ اور ’’وَجْہٌ‘‘یعنی ’’چہرے ‘‘ والی آیات ۔ ان کے ظاہری معنیٰ معلوم تو ہیں لیکن یہ مراد نہیں ، جبکہ ان کے حقیقی مرادی معنیٰ میں کئی احتمال ہوسکتے ہیں اور ان میں سے کون سا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے یا وہ جسے اللہ تعالیٰ اس کاعلم دے۔پہلی قسم یعنی مُحْکَمْ کے بارے میں فرمایا کہ’’ یہ کتاب کی اصل ہیں ، یعنی احکام شرعیہ میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور حلال و حرام میں انہیں پر عمل کیا جاتا ہے ۔
{اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ: وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے۔} یہاں سے دو گروہوں کا تذکرہ ہے ۔ پہلا گروہ گمراہ اور بدمذہب لوگوں کا ہے جو اپنی خواہشاتِ نفسانی کے پابند ہیں اور متشابہ آیات کے ظاہری معنٰی لیتے ہیں جو کہ صریح گمراہی بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہوتا ہے یا ایسے لوگ متشابہ آیات کی غلط تاویل کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ سچے مومنوں کا ہے جو متشابہ آیات کے معانی کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محکم و متشابہ سارے کا سارا قرآن ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو معنی متشابہ کی مراد ہیں وہ حق ہیں اوراس کا نازل فرمانا حکمت ہے۔
اللہ تعالیٰ کسی کو متشابہات کا علم عطا فرماتا ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں محققین علماء نے فرمایا ہے کہ’’ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان اس سے اَرفَع و اعلیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی اس کا علم عطا نہ فرمائے بلکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صدقے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمت کے اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو بھی اس کا علم ملتا ہے۔
{وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ: اور علم میں پختہ لوگ۔} حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رَاسِخْ فِی الْعِلْم وہ عالمِ باعمل ہے جو اپنے علم کی پیروی کرنے والا ہو۔ مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ رَاسِخْ فِی الْعِلْم وہ ہیں جن میں یہ چار صفتیں ہوں : (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کا تقویٰ، (2) لوگوں کے ساتھ تواضع، (3) دنیا سے زُہد، (4) نفس سے مجاہدہ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷، ۱ / ۲۳۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے تھے کہ’’ میں رَاسِخِینْ فِی الْعِلْم سے ہوں اور حضرت مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی فرمایا کہ’’ میں ان میں سے ہوں جو متشابہ کی تاویل جانتے ہیں۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۱۵، الجزء الرابع)
{اُولُوا الْاَلْبَابِ: عقل والے ۔} ارشاد فرمایا کہ’’ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقل بہت بڑی فضیلت اور خوبی ہے، عقل کے ذریعے ہدایت و نصیحت ملتی ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ جس عقل سے ہدایت نہ ملے وہ بدترین حماقت ہے، جیسے طاقت اچھی چیز ہے لیکن جو طاقت ظلم کیلئے استعمال ہو وہ کمزوری سے بھی بدتر ہے۔