Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 75 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّهٖۤ اِلَیْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْهِ قَآىٕمًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌۚ-وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(75)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ: اور اہلِ کتاب میں کوئی تو وہ ہے۔}یہ آیت اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی اور اس میں ظاہر فرمایا گیا کہ’’ ان میں دوقسم کے لوگ ہیں : امانت دار اور بددیانت۔ بعض تو ایسے ہیں کہ ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر مال بھی امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تو وہ بغیر کسی کمی بیشی کے وقت پر ادا کردیں گے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کے پاس ایک قریشی نے بارہ سو اوقیہ یعنی تقریبا ً147کلوسونا امانت رکھا تھا، آپ نے اس کو ویسا ہی ادا کیا اور بعض اہلِ کتاب اتنے بددیانت ہیں کہ تھوڑے سے مال پر بھی ان کی نیت بگڑ جاتی ہے۔ جیسے کہ فَنْحَاص بِنْ عَازُورَاء نامی یہودی جس کے پاس کسی نے ایک اشرفی امانت رکھی تھی لیکن وہ واپسی کے وقت اس سے بھی مُکَرگیا۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۷۵، ۲ / ۵۴)
تو ان دونوں قسم کے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اہلِ کتاب میں کوئی تو وہ ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک ڈھیر بھی امانت رکھ دو تو وہ تمہیں پورا پورا واپس ادا کردے گا اور انہی میں سے کوئی وہ ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دو تو جب تک تم اس کے سر پر کھڑے نہیں رہو گے اور بار بار تقاضا نہیں کرتے رہو گے وہ تمہیں ادا نہیں کرے گا گویا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ڈر سے نہیں بلکہ لوگوں کے ڈر سے اور بار بار کے تقاضے پر ہی امانت ادا کرے گا اور ایسی امانت داری قابلِ تعریف نہیں جو بلند اخلاقی اور خوف ِ خدا کی وجہ سے نہ ہو بلکہ لوگوں کے ڈر سے ہو ۔ یہودی اس طرح بددیانتی کی حرکتیں کرتے اور اپنے نفس کو اس حیلے بہانے سے راضی کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں دوسرے دین والوں کے مال ہضم کرجانے کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں کوئی ایسا حکم نہیں اور ان کی یہ بات اللہ تعالیٰ پر بہتا ن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دھوکے اور ظلم کے طور پر کسی کا مال دبا لینا حرام ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے مذہب کا ہو۔ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہجرت کی رات حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ان لوگوں کی امانتوں کی ادائیگی کی ذمہ داری دے کر گئے جو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور جن سے تنگ آکر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہجرت کررہے تھے۔ سُبْحَانَ اللہ۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام، ہجرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۹۲-۱۹۳)
اے کاش کہ ہمارے مسلمان بھائی غور فرمائیں کہ وہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی سنت پر عمل پیرا ہیں یا یہودیوں کے طریقے پر؟ اس وقت عمومی طور پر مسلمان دنیا میں نیک نام نہیں ہیں۔