Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 92 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﱟ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ(92)
تفسیر: صراط الجنان
{لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا: تم ہرگزبھلائی کو نہیں
پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔} اس آیت میں بھلائی سے مراد تقویٰ اور
فرمانبرداری ہے اور خرچ کرنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن
عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُمَا نے
فرمایا کہ’’یہاں خرچ کرنے میں واجب اور نفلی تمام صدقات داخل ہیں۔ امام حسن
بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِ نے فرمایا: جو مال
مسلمانوں کو محبوب ہو اسے رضائے الہٰی کے لیے خرچ کرنے والا اس آیت کی فضیلت میں
داخل ہے خواہ وہ ایک کھجور ہی ہو۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ:۹۲، ۱ / ۲۷۲)
راہِ خدا میں اپناپیارا
مال خرچ کرنے کے5
واقعات:
اس آیتِ مبارکہ پر عمل
کے سلسلے میں ہمارے اَسلاف کے 5 واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)…صحیح بخاری اور مسلم
کی حدیث میں ہے کہ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینے میں بڑے مالدار تھے، انہیں اپنے اموال
میں بَیْرُحَاء نامی ایک باغ بہت
پسند تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ میں کھڑے ہو کر عرض
کی: مجھے اپنے اموال میں ’’بَیْرُحَاء‘‘ باغ سب سے پیارا ہے،
میں اسی کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر مسرت کا اظہار
فرمایا اور پھر حضرت ابوطلحہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اشارے پر وہ باغ
اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردیا۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الاقارب، ۱ /
۴۹۳، الحدیث: ۱۴۶۱، مسلم ، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی
الاقربین۔۔۔ الخ، ص ۵۰۰، الحدیث: ۴۲(۹۹۸))
(2)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو موسیٰ
اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کو
لکھا کہ’’میرے لئے ایک باندی خرید کر بھیج دو۔ جب وہ آئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بہت پسند آئی ،لیکن
پھرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ نے
یہ آیت پڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اس کو آزاد کردیا۔ (بغوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱ / ۲۵۳)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نے اس آیت’’لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى
تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ‘‘ کی تلاوت کی تو میں نے اللہ تعالیٰ
کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں غور کیا (کہ کون سی نعمت مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے، جب غور کیا) تو میں نے اپنی باندی کو
اپنے نزدیک سب سے زیادہ پیارا پایا، اس پر میں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جس
چیز کو میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے کر
دیا، اس کی طرف نہ لوٹوں گا تو میں اس باندی سے نکاح کر لیتا۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم،
ذکر عبد اللہ بن عمر۔۔۔ الخ، کان ابن عمر ازہد القوم واصوبہ رأیًا، ۴
/ ۷۲۸، الحدیث:
۶۴۳۵)
(4)… حضرت عمرو بن
دینار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ فرماتے
ہیں : جب یہ آیت’’ لَنْ
تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا
تُحِبُّوْنَ‘‘ نازل ہوئی تو حضرت
زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ اپنے (پسندیدہ) گھوڑے کو لے کر بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے
اور عرض کی: یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، آپ اس گھوڑے کو صدقہ
فرما دیں۔ تاجدار رسالت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ گھوڑا ان کے بیٹے
حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ کو
عطا فرما دیا تو حضرت زیدرَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: میں نے اس گھوڑے کو محض (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) صدقہ کرنے کا ارادہ کیا ہے !نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک
تیرا صدقہ قبول کر لیا گیا ہے۔(ابن عساکر ، ذکر من اسمہ زید، زید بن حارثہ بن شراحیل، ۱۹
/ ۳۶۷ )
(5)…حضرت عمر بن
عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ شکر کی بوریاں خرید کر صدقہ کرتے تھے۔ ان سے کہا گیا: اس کی قیمت
صدقہ کیوں نہیں کردیتے؟ آپ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: شکر مجھے محبوب ومرغوب ہے ، میں چاہتا
ہوں کہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں اپنی پیاری چیز خرچ
کروں۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۱۷۲)
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں
کو اپنی محبوب اور پسندیدہ چیزیں راہِ خدا میں دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین[1]
{وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ:اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم اس کی راہ میں عمدہ، نفیس اور اپنی پسندیدہ چیز خرچ کر رہے ہو یا ردی، ناکارہ اور اپنی ناپسندیدہ چیز خرچ کر رہے ہو، تو جیسی چیز تم خرچ کرو گے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ تمہیں جزا عطا فرمائے گا۔(روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ۲ / ۶۳)
[1] ۔۔۔ صدقات
کے فضائل واحکام اور ان سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’ضیائے
صدقات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا فائدہ مند ہے۔