Home ≫ ur ≫ Surah Al Insan ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا(1)
تفسیر: صراط الجنان
{هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ: بیشک آدمی پر ایک وقت وہ گزرا۔} اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت میں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ روح پھونکے جانے سے پہلے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر چالیس سال کا وقت ایسا گزرا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھے کیونکہ وہ ایک مٹی کا خمیر تھے،نہ کہیں ان کا ذکر تھا، نہ ان کو کوئی جانتا تھا اورنہ کسی کو ان کی پیدائش کی حکمتیں معلوم تھیں ۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد مراد ہے اوروقت سے اس کے حمل میں رہنے کا زمانہ مراد ہے ، اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ بے شک ماں کے پیٹ میں آدمی پر ایک وقت وہ گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا کیونکہ وہ پہلے نطفے کی شکل میں تھا،پھر جما ہوا خون بنا، پھر گوشت کا ٹکڑا بنااور اس کی جنس کسی کو معلوم نہ تھی یہاں تک کہ وہ لوگوں کے درمیان قابلِ ذکر چیز بن گیا۔( تفسیر کبیر ، الانسان ، تحت الآیۃ : ۱، ۱۰ / ۷۳۹ ، مدارک، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۰۵، جلالین، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ص۴۸۳، خازن، الانسان، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۳۷-۳۳۸، ملتقطاً)
نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان:
یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ان کا کہیں ذکر نہ تھا جبکہ اللّٰہ تعالیٰ نے کائنات وجود میں آنے سے پہلے ہی اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر جاری فرما دیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کوبیان فرما دیا،جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: ’’وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ‘‘(ال عمران:۸۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب اللّٰہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گاپھر تمہارےپاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گاتو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ (اللّٰہ نے) فرمایا: (اے انبیاء!) کیا تم نے (اس حکم کا) اقرار کرلیا اور اس (اقرار) پر میرا بھاری ذمہ لے لیا؟ سب نے عرض کی، ’’ہم نے اقرار کرلیا‘‘ (اللّٰہ نے) فرمایا، ’’ تو (اب) ایک دوسرے پر (بھی) گواہ بن جاؤ اور میں خود (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔
اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی پیدائش کے بعد عرش پر نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نامِ پاک لکھا دیکھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کو پہچان گئے،جیساکہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لغزش سرزَد ہوئی تو انہوں نے عرش کی طرف اپنا سر اُٹھایا اور عرض کی (اے اللّٰہ!) میں محمد کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری مغفرت فرما دے۔اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی کہ محمد کون ہیں ؟ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی:اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرا نام برکت والا ہے،جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے سر اُٹھا کر تیرے عرش کی طرف دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا ’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رسولُ اللّٰہ‘‘ تو میں نے جان لیا کہ تیری بارگاہ میں اُس شخص سے زیادہ کسی کا مرتبہ اور مقام نہ ہو گا جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی فرمائی:اے آدم! یہ تیری اولاد میں سے سب سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت تمہاری اولاد کی امتوں میں سے سب سے آخری امت ہے اور اگر وہ نہ ہوتے تو اے آدم! میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔ (معجم صغیر، باب المیم، من اسمہ: محمد، الجزء الثانی، ص۸۲)
اور دنیا میں تشریف آوری سے صدیوں پہلے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ کی آمد کی بشارت دے دی حتّٰی کہ آپ کا نام تک بتا دیا،جیسا کہ سورۂ صف میں ہے:
’’وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ‘‘(صف:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نےفرمایا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللّٰہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہے۔