Home ≫ ur ≫ Surah Al Inshiqaq ≫ ayat 13 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّهٗ كَانَ فِیْۤ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًاﭤ(13)اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ(14)بَلٰۤىۚۛ-اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِیْرًاﭤ(15)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّهٗ كَانَ فِیْۤ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا: بیشک وہ اپنے گھر والوں میں خوش تھا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کا یہ حال اس لئے ہو گا کہ وہ دنیا کے اندراپنے گھر میں اپنی خواہشوں ، شہوتوں ،تکبر اور غرور میں خوش تھا،اس نے یہ سمجھ رکھا تھاکہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف نہیں لوٹے گااور وہ مرنے کے بعد اُٹھایا نہ جائے گا اور جیسا اس نے گمان کیا تھا درحقیقت ویسا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ ضرور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹے گااور مرنے کے بعد اسے اُٹھایاجائے گا اور اس کے اعمال کا حساب کیا جائے گا،بیشک اس کا رب عَزَّوَجَلَّ اس کے کفر اور تمام گناہوں کودیکھ رہا ہے اور اس کا کوئی عمل اللّٰہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں لہٰذا وہ بہر حال اللّٰہ تعالیٰ کی طرف لوٹے گا اور اپنے اعمال کی جزا پائے گا۔( خازن، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۵، ۴ / ۳۶۳، مدارک، الانشقاق، تحت الآیۃ: ۱۳-۱۵، ص۱۳۳۴، ملتقطاً)
آخرت سے غفلت اور بے فکری انتہائی نقصان دِہ ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دنیا کی رنگینیوں میں مشغول ہو کر اپنی آخرت سے غافل اور بے فکرہو جائے اور اس کی بہتری کے لئے کوشش نہ کرے تو وہ آخرت میں بہت نقصان اٹھا ئے گا اور ایسا شخص دنیا میں بھی نقصان ہی اٹھاتا ہے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جسے آخرت کی فکر ہو اللّٰہ تعالیٰ ا س کا دل غنی کر دیتا ہے اور ا س کے بکھرے ہوئے کاموں کو جمع کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل لونڈی بن کر آتی ہے اور جسے دنیا کی فکر ہو، اللّٰہ تعالیٰ محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے، اس کے جمع شدہ کاموں کو مُنتشر کر دیتا ہے اور دنیا (کے مال) سے بھی اسے اتنا ہی ملتا ہے جتنا اس کے لئے مقدر ہے۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۳۰-باب، ۴ / ۲۱۱، الحدیث: ۲۴۷۳)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دنیا کے عیش و عشرت میں کھو کر اپنی آخرت سے غافل اور بے فکر ہونے سے بچائے اور اپنی آخرت بہتر بنانے کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔