Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 109 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا(108)وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا(109)
السجدة (4)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ یَقُوْلُوْنَ: اور کہتے ہیں ۔} گزشتہ آیت میں جن سعادت مندوں کا تذکرہ کیا گیا تھا اگلی آیات میں انہی کے قول و فعل کا ذکر ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہر عیب سے پاک ہے لہٰذا وہ وعدہ خلافی سے بھی پاک ہے توبیشک ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ پورا ہونے والا تھا جو اُس نے اپنی پہلی کتابوں میں فرمایا تھا کہ نبی آخر الزماں محمد مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعو ث فرمائیں گے اور یہ وعدہ پورا ہوچکا۔ یہ تو ان حضرات کا قول و عقیدہ تھا اور ان کا عمل یہ ہے کہ جب یہ قرآن سنتے ہیں تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور عجز و نیاز سے اور نرم دِلی سے روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرجاتے ہیں اور یہ قرآن ان کے دلوں کے خشوع و خضوع کو اور ان کے دلوں کے جھکنے کو اور بڑھادیتا ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۰۸-۱۰۹، ۳ / ۱۹۵)
تلاوتِ قرآن کے وقت رونا مستحب ہے:
قرآنِ کریم کی تلاوت کے وقت رونا مستحب ہے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک یہ قرآن حُزن کے ساتھ اترا ہے، اس لئے جب تم اسے پڑھو تو رؤو اور اگر رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بناؤ۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷) اور یہ رونا اگر اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے ہو تو اس کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ ترمذی و نسائی کی حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ وہ شخص جہنم میں نہ جائے گا جو اللّٰہ تعالیٰ کے خوف سے روئے۔( ترمذی، کتاب فضاءل الجہاد، باب ما جاء فی فضل الغبار فی سبیل اللّٰہ، ۳ / ۲۳۶، الحدیث: ۱۶۳۹، نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللّٰہ علی قدمہ، ص۵۰۵، الحدیث: ۳۱۰۵)
تلاوتِ قرآن سے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم دل میں نرمی او ر خشوع وخضوع پیدا کرتا ہے ۔ اسی لئے حدیث ِ مبارک میں حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان دلوں کی صفائی کس چیز سے ہو گی؟ ارشاد فرمایا: موت کو زیادہ یاد کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی ادمان تلاوتہ، ۲ / ۳۵۲، الحدیث: ۲۰۱۴)
{وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ:اور وہ ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں ۔}یاد رہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ایک ہے جنہیں پڑھنے اور سننے والے پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔