Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 12 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا(12)
تفسیر: صراط الجنان
{ اٰیَتَیْنِ: دونشانیاں ۔} اس آیت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی قدرت کی دو عظیم نشانیاں بیان فرمائیں اور وہ دو نشانیاں دن اور رات ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ ہم نے رات کی نشانی کو مٹا ہوا بنایا یعنی رات کو تاریک بنایا کہ اس میں ہر چیز چھپ جاتی ہے اور تاریک بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں آرام کیا جائے جبکہ دن کو روشن بنایا تاکہ اس میں سب چیزیں نظریں آئیں اور تم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل یعنی اپنی روزی آسانی سے کما سکو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۶۱۸، جلالین، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۲۳۱، ملتقطاً)
آیت’’لِتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…بیکار رہنا اورکمائی نہ کرنا بہت نامناسب ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ہاتھ پاؤں برتنے کو دئیے ہیں ا س لئے انہیں بیکار نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ہاتھ پاؤں اور دیگر جسمانی اَعضا سلامت ہونے اور کمائی کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اپنوں یا پرایوں سے مانگ کر گزارہ کرتے ہیں ۔
(2)… رزق حقیقت میں اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے، مَحض ہماری کمائی کا نتیجہ نہیں ، اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ اپنے ہنر و کمال پر ناز نہ کرے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر نگاہ رکھے۔اپنی محنت کر کے اللّٰہ تعالیٰ کے فضل پر نگاہ رکھنا ہی تَوکّل ہے۔
{لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ: تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو۔} یعنی رات اور دن کی تخلیق کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ رات اوردن کے دورے سے تم دنوں کا حساب بناتے ہو، پھر دنوں سے ہفتے اور مہینے اورپھر سال بنتے ہیں تو گویا یہ نظام تمہاری زندگی کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ہے اور اسی دن رات کی تبدیلی سے تم دینی و دنیوی کاموں کے اوقات کاحساب لگاتے ہو۔(روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۱۳۹، ملخصاً)
{وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا:اور ہم نے ہر چیز کوخوب جدا جدا تفصیل سے بیان کردیا۔} یعنی ہم نے قرآن میں ہر چیز کو تفصیل سے بیان فرمادیا خواہ اس کی حاجت تمہیں دین میں ہو یا دنیا کے کاموں میں ۔ مقصد یہ ہے کہ ہرایک چیز کی تفصیل بیان فرمادی جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا
’’ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ‘‘(انعام:۳۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
نیز ایک اور آیت میں ارشاد کیا
’’وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ‘‘(النحل:۸۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۳ / ۱۶۸، جمل، الاسراء، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۳۰۱، ملتقطاً)
غرض ان آیات سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم میں جمیع اَشیاء کا بیان ہے، سُبْحَانَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! کیا کتاب ہے اور کیسی اس کی جامعیت ہے، اس کی کچھ جھلک دیکھنی ہو تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم الشان کتاب ’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہٗ الْمَصْؤُنُ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْ‘‘(قرآن ہر چیز کا بیان ہے) کا مطالعہ فرمائیں جس میں آپ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے انتہائی شاندار انداز میں علومِ قرآن کی وسعت کا بیان فرمایا ہے۔