banner image

Home ur Surah Al Isra ayat 19 Translation Tafsir

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل (اَلْاَسْرَاء)

Al Isra

HR Background

وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(19)

ترجمہ: کنزالایمان اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے اور ہو ایمان والا تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ: اور جو آخرت چاہے۔} اس سے پہلی آیت میں  طالب ِ دنیا کا بیان کیا گیا جبکہ اس آیت میں  طالب ِ آخرت کا بیان ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جو آخرت کا طلبگار ہے اور اس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے یعنی  نیک اعمال بجالاتا ہے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہ وہ آدمی ہے جس کا عمل مقبول ہے اور یہی وہ لوگ ہیں  جن کے اعمال کا اچھا صِلہ دیا جائے گا۔

عمل کی مقبولیت کے لئے درکار تین چیزیں :

            اس آیت میں  مومن ہونے کی شرط کا بیان ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی قبول نہیں ، نیکیوں  کے لئے ایمان ایسا ضروری ہے جیسے نماز کے لئے وضو، یا بہترین غذا کے لئے زہر سے خالی ہونا۔ ایمان جڑ ہے اور اعمال اس کی شاخیں ۔ صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی  رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہاں  بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی کہ  اس آیت سے معلوم ہوا کہ عمل کی مقبولیت کے لئے تین چیزیں  درکار ہیں : ایک تو طالبِ آخرت ہونا یعنی نیت نیک۔ دُوسرے سعی یعنی عمل کو باہتمام اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا۔ تیسری ایمان جو سب سے زیادہ ضروری ہے۔( خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۵۲۹)