Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 23 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَضٰى رَبُّكَ: اور تمہارے رب نے
حکم فرمایا ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 16 آیات
میں اللّٰہ تعالیٰ نے
تقریباً 25کاموں کا حکم دیا ہے ۔ آیت کے ابتدائی حصے کا معنی یہ ہے کہ
تمہارے رب عَزَّوَجَلَّنے حکم فرمایا کہ
تم اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت
میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں جو کام کرنے کااللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں کرو اور جن کاموں سے منع
کیا ہے ان سے بچو۔ اس میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی رسالت کا اقرار،
ان سے محبت اور ان کی تعظیم کرنا بھی داخل ہیں کیونکہ اس کا بھی اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘(اٰل عمران:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے حبیب!فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم اللّٰہسے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللّٰہ تم سے محبت فرمائے
گا۔( صاوی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۱۲۵)
{وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا: اور ماں باپ
کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔} اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی
عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا
حکم دیا ،اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں
باپ ہیں ا س لئے اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے
انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم
کا حکم دیا ۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے
سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم
ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔( تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ /
۳۲۱،۳۲۳)
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک
کرنے سے متعلق12 اَحادیث:
اس آیت میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا گیا، اسی مناسبت سے
ترغیب کے لئے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق سے متعلق 12 اَحادیث
یہاں ذکر کی جاتی ہیں
(1)… حضرت
ابوہریرہ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد
فرمایا: ’’تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں
نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا :’’تمہاری ماں ۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟
حضورِ اقدس صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر ماں
کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔( بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، ۴ /
۹۳، الحدیث: ۵۹۷۱)
(2)…حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضورِ
اقدس صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے
دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں
چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔( مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب،باب فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ
ونحوہما، ص۱۳۸۲، الحدیث: ۱۳(۲۵۵۲))
(3)… حضرت
اسماء رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہافرماتی
ہیں ’’جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی
میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، میری ماں
آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا
میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو۔( بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، ۴ / ۹۶، الحدیث: ۵۹۷۸)یعنی کافرہ ماں کے
ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔
(4)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں
قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا :یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے
کہا، حارثہ بن نعمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔ حضورِ
اقدس صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔( شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، ۶ /
۴۲۶، الحدیث: ۳۳۱۲)اور شعب الایمان کی روایت
میں مزید یہ بھی ہے کہ ’’ حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی
ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔( شعب الایمان،
الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۱۸۴، الحدیث: ۷۸۵۱)
(5)…حضرت ابو اسید بن
مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ماں باپ کے ساتھ نیک
سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔(کنز العمال، حرف النون، کتاب النکاح، قسم الاقوال،
الباب الثامن فی برّ الوالدین، ۸ /
۱۹۲، الحدیث: ۴۵۴۴۱، الجزء
السادس عشر)
(6)… اعلیٰ
حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں (جس کا
خلاصہ ہے کہ )’’ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوکر عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ وَسَلَّمَ، میں اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی میں نیک سلوک
کرتا تھا ، وہ انتقال کرگئے ہیں تو اب ان کے ساتھ نیک سلوک کی کیا صورت ہے؟
ارشاد فرمایا ’’انتقال کے بعد نیک سلوک سے یہ ہے کہ تواپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے
بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لئے روزے رکھے۔‘‘ یعنی جب اپنے
ثواب ملنے کے لئے کچھ نفلی نماز پڑھے یاروزے رکھے تو کچھ نفل نماز ان کی طرف سے کہ
انہیں ثواب پہنچائے یانماز روزہ جونیک عمل کرے ساتھ ہی انہیں ثواب
پہنچنے کی بھی نیت کرلے کہ انہیں بھی ثواب ملے گا اور تیرا بھی کم نہ ہوگا۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: الحقوق لطرح العقوق، ۲۴
/ ۳۹۵،ملخصاً)
(7)…حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو
رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول
کریم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی
میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی
رضا الوالدین، ۳ /
۳۶۰، الحدیث: ۱۹۰۷)
(8)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۶۴۱، الحدیث: ۲۲۵۵)
(9)…حضرت عبد اللّٰہ بن
عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا ’’تین شخص جنت میں نہ جائیں گے (1) ماں
باپ کا نافرمان۔ (2) دیّوث ۔(3) مَردوں کی وضع بنانے والی
عورت۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، ۲ / ۴۳، الحدیث: ۲۴۴۳)
(10)… حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ
اقدس صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ماں باپ کی نافرمانی کے
علاوہ اللّٰہ تعالیٰ ہر گناہ
میں سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا
انسان کو موت سے پہلے زندگی ہی میں مل جائے گی۔( شعب الایمان،
الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی عقوق الوالدین، ۶ /
۱۹۷، الحدیث: ۷۸۹۰)
(11)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’
یہ بات کبیرہ گناہوں میں ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابۂ
کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، کیا کوئی شخص اپنے
ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ، اس کی صورت یہ ہے کہ یہ
دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ دوسرے کی
ماں کو گالی دیتا ہے، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب الکبائر واکبرہا، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۶(۹۰))صدر الشریعہ مفتی امجد
علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صحابۂ کرام( رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ) جنھوں نے عرب کا زمانہ ٔ جاہلیت دیکھا
تھا، ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اپنے ماں باپ کو کوئی
کیوں کر گالی دے گا یعنی یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی۔ حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ) نے بتایا کہ مراد دوسرے
سے گالی دلوانا ہے اور اب وہ زمانہ آیا کہ بعض لوگ خود اپنے ماں باپ کو
گالیاں دیتے ہیں اور کچھ لحاظ نہیں کرتے۔( بہار شریعت، حصہ
شانزدہم، سلوک کرنے کا بیان، ۳ / ۵۵۲)
(12)… حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ
اکرم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی
ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنے ماں باپ
دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ
شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما
عند الکبر۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۱، الحدیث:۹(۲۵۵۱))⁞
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے
اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے ۔
والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق سے متعلق مزید معلومات کے لئے فتاویٰ
رضویہ کی جلد نمبر 24 سے رسالہ ’’اَلْحُقُوْقْ لِطَرْحِ الْعُقُوقْ‘‘(نافرمانی کو ختم کرنے کے لئے حقوق کی تفصیل کا
بیان)[1] اور بہار شریعت
حصہ 16 سے ’’سلوک کا بیان‘‘ مطالعہ کیجئے۔
{اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا:اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو
پہنچ جائیں ۔} یعنی اگر تیرے والدین پر کمزوری کا غلبہ ہو جائے اور ان کے
اَعضا میں طاقت نہ رہے اور جیسا تو بچپن میں اُن کے پاس بے طاقت تھا
ایسے ہی وہ اپنی آخری عمر میں تیرے پاس ناتواں رہ جائیں تو ان
سے اُف تک نہ کہنا یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا
جس سے یہ سمجھا جائے کہ اُن کی طرف سے طبیعت پرکچھ بوجھ ہے اور انہیں نہ
جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا اور حسنِ ادب کے ساتھ اُن سے خطاب کرنا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۷۰-۱۷۱، مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۶۲۰، ملتقطاً)
والدین سے متعلق اسلام کی
عظیم تعلیم:
یہاں آیت کی مناسبت سے دو باتیں یاد رکھیں ،ایک یہ
کہ کوئی شخص ماں باپ کو اُن کا نام لے کر نہ پکارے یہ خلافِ ادب ہے اور
اس میں اُن کی دل آزاری ہے لیکن وہ سامنے نہ ہوں تو اُن کا ذکر نام لے
کر کرنا جائز ہے ۔دوسری یہ کہ ماں باپ سے اس طرح کلام کرے جیسے غلام و خادم
آقا سے کرتا ہے۔ ان آیات اور اَحادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور انسان پر
واضح ہو جائے گا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے
کی جیسی عظیم تعلیم اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دی ہے ویسی پوری دنیا
میں پائے جانے والے دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتی۔ فی زمانہ غیر
مسلم ممالک میں بوڑھے والدین ایسی نازک ترین صورتِ حال کا شکار ہیں کہ
ان کی جوان اولاد کسی طور پر بھی انہیں سنبھالنے اور ان کی خدمت کر کے ان کا
سہارا بننے کے لئے تیار نہیں ہوتی ،اسی وجہ سے وہاں کی حکومتیں
ایسی پناہ گاہیں بنانے پر مجبور ہیں جہاں بوڑھے اور بیمار
والدین اپنی زندگی کے آخری ایام گزار سکیں ۔
[1] ۔۔۔۔ یہ رسالہ تسہیل وتخریج کے ساتھ بنام ’’والدین، زوجین اور اساتذہ کے
حقوق‘‘ مکتبۃ المدینہ سے جداگانہ بھی شائع ہوچکا ہے، اسے وہاں سے ہدیۃً حاصل
کر کے مطالعہ فرمائیں ۔