Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 26 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(26)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ:اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو۔} اس آیت میں والدین کے بعد دیگر لوگوں کے حقوق بیان کئے جا رہے ہیں چنانچہ سب سے پہلے رشتے داروں کا فرمایا کہ انہیں ان کا حق دو یعنی اُن کے ساتھ صِلہ رحمی کرو ، ان سے محبت سے پیش آؤ، ان سے میل جول رکھو اور ان کی خبر گیری کرتے رہو اور ضرورت کے موقع پر ان کی مدد کرو اور ان کے ساتھ ہر جگہ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔ رشتہ داروں کا خرچ اٹھانے سے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ اگر رشتے دار مَحارم میں سے ہوں اور محتاج ہوجائیں تو اُن کا خرچ اُٹھانا یہ بھی ان کا حق ہے اور صاحب ِاِستطاعت رشتہ دار پر لازم وواجب ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۷۲)
یاد رہے کہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک کا قرآنِ پاک میں بکثرت حکم دیا گیا ہے چنانچہ کم از کم 8 مقامات پر اللّٰہ تعالیٰ نے رشتے داروں سے حسنِ سلوک کا فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے ،نیز یہاں رشتے داروں کے بعد مسکینوں اور مسافروں کا حق دینے کا فرمایا کہ اُن کا حق دو۔
{وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا: اور فضول خرچی نہ کرو۔} یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے تَبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مَصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۷۲)
اِسرا ف کا حکم اور اس کے معانی:
اسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجائز ہے اور علماءِ کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ،ان میں سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں :
(1)…غیرِ حق میں صَرف کرنا۔ (2) …اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) …ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مُطَہَّر یا مُرَوّت کے خلاف ہو ،اول حرام ہے اور ثانی مکروہِ تنزیہی۔ (4) …طاعتِ الٰہی کے غیر میں صرف کرنا۔ (5) …شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) …غیرِ طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا۔ (7)…دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) …ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) …حرام میں سے کچھ یا حلال کو اِعتدال سے زیادہ کھانا۔ (10) …لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا ۔ (11) …بے فائدہ خرچ کرنا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان تعریفات کو ذکر کرنے اور ان کی تحقیق و تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’ہمارے کلام کا ناظر خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں سب سے جامع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اُس عبداللّٰہ کی تعریف ہے جسے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ علم کی گٹھری فرماتے اور جو خلفائے اربعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بعد تمام جہان سے علم میں زائد ہے اور جوابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مُورثِ علم ہےرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُ وَعَنْہُمْ اَجْمَعِیْن۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۶۹۶-۶۹۷)
تَبذیر اوراِ سراف میں فرق:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تبذیر اور اسراف میں فرق سے متعلق جو کلام ذکر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے بارے میں علما ءِ کرام کے دو قول ہیں :
(1)…تبذیر اور اسراف دونوں کے معنی ناحق صَرف کرنا ہیں ۔ یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبداللّٰہ بن مسعود اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس اور عام صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا ہے۔
(2)…تبذیر اور اسراف میں فرق ہے، تبذیر خاص گناہوں میں مال برباد کرنے کا نام ہے۔
اس صورت میں اسراف تبذیر سے عام ہوگا کہ ناحق صرف کرنا عَبث میں صرف کرنے کو بھی شامل ہے اور عبث مُطْلَقاً گناہ نہیں توچونکہ اسراف ناجائز ہے ا س لئے یہ خرچ کرنا معصیت ہوگا مگر جس میں خرچ کیا وہ خود معصیت نہ تھا۔ اور عبارت ’’لَاتُعْطِ فِی الْمَعَاصِیْ‘‘کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کام خود ہی معصیت ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے مقصود اور حکم دونوں معصیت ہیں اور اسراف کو صرف حکم میں معصیت لازم ہے۔( فتاوی رضویہ، ۱ / ۶۹۷-۶۹۸، ملخصاً)