ترجمہ: کنزالایمان
اور اگر تو ان سے منہ پھیرے اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تجھے امید ہے تو ان سے آسان بات کہہ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اگر تم اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تجھے امید ہے ان سے منہ پھیرو تو ان سے آسان بات کہو۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمْ: اور اگر
تم ان سے منہ پھیرو۔} اس سے اوپر والی آیات
میںرشتہ داروں، مسکینوںاور مسافروںکا بیان ہوا تھا ، اور
اس آیت میںفرمایا کہ اگر کسی وقت تمہارے
پاس فوری دینے کو کچھ نہ ہو تو ان سے آسان بات کہو جیسے اُن کی خوش دلی کے لئے
اُن سے وعدہ کرلویا اُن کے حق میںدعا
کردو ۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضرت بلال، حضرت صہیب ، حضرت سالم ، حضرت خبّاب (اور ان کے علاوہ چند صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم) وقتاً
فوقتاً رسولُ اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ سے اپنی حاجات و ضروریات کے لئے سوال کرتے رہتے
تھے، اگرکسی وقت حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس
کچھ نہ ہوتا تو آپ حیاء ً اُن سے اِعراض کرتے اور اِس انتظار میںخاموش ہوجاتے کہ اللّٰہ تعالیٰ کچھ بھیجے تو اُنہیںعطا فرمائیں ۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔(جلالین، الاسراء،
تحت الآیۃ: ۲۸، ص۲۳۲، خازن، الاسراء،
تحت الآیۃ: ۲۸، ۳ / ۱۷۲، ملتقطاً)
مستحق کو
جھڑکنا حرام اور غیر مستحق کو دینا منع ہے:
یاد رہے کہ کسی بھی صورت مجبور رشتے دار، مسکین یا سائل کو جھڑکنا
نہیںچاہیے۔ مستحق کو جھڑکنا حرام ہے،
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْ‘‘(سورہ والضحی:۱۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اورکسی
بھی صورت مانگنے والے کو نہ جھڑکو۔
البتہ جو غیر مستحق ہے اسے نہ دینے کا حکم ہے چنانچہ فتاویٰ رضویہ
میںہے گدائی تین قسم ہے: ایک غنی مالدار
جیسے اکثر جوگی اور سادھو بچّے، انھیںسوال کرنا حرام اور انھیںدینا
حرام، اور اُن کے دئیے سے زکوٰۃ ادا نہیںہوسکتی، فرض سر پر باقی رہے گا۔ دوسرے وہ کہ واقع میں فقیر ہیں ، قدرِ نصاب
کے مالک نہیںمگر قوی و تندرست کسب پر
قادر ہیںاور سوال کسی ایسی ضرورت کے لیے
نہیںجوان کے کسب سے باہر ہو، کوئی حرفت
یا مزدوری نہیںکی جاتی مفت کا کھانا
کھانے کے عادی ہیںاور اس کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیںانھیںسوال کرنا حرام، اور جو کچھ انھیںاس سے ملے وہ ان کے حق میںخبیث۔ انھیںبھیک دینا منع ہے کہ معصیت پر اعانت ہے، لوگ
اگر نہ دیںتو مجبور ہوںکچھ محنت مزدوری کریں ۔ مگر ان کے دئیے سے زکوٰۃ ادا ہوجائیگی جبکہ اور کوئی مانع شرعی نہ ہو
کہ فقیر ہیں ۔ تیسرے وہ عاجز نا تواںکہ
نہ مال رکھتے ہیںنہ کسب پر قدرت،
یا جتنے کی حاجت ہے اتنا کمانے پر قادر نہیں ، انھیںبقدرِ حاجت سوال حلال، اور اس سے جو کچھ ملے ان
کے لیے طیّب، اور یہ عمدہ مصارفِ زکوٰۃ سے ہیںاور انھیںدینا باعث ِاجر ِعظیم،
یہی ہیںوہ جنھیںجھڑکنا حرام ہے۔( فتاوی رضویہ، کتاب الزکوۃ، ۱۰ / ۲۵۳-۲۵۴)
سورت کا تعارف
سورۂ بنی اسرائیل کا
تعارف
مقامِ نزول:
حضرت قتادہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ یہ سورت ’’وَ اِنْ كَادُوْا
لَیَفْتِنُوْنَكَ‘‘
سے لے کر’’نَصِیْرًا‘‘تک آٹھ آیتوں کے علاوہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الاسراء،۳ / ۱۵۳)علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جَزم کیا(یعنی یقین کے ساتھ لکھا) ہے کہ پوری سورت ہی مکۂ
مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔(بیضاوی مع حاشیۃ الشہاب،
سورۃ بنی اسرائیل،۶ / ۳، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 12 رکوع اور
111 آیتیں ہیں ۔
سورۂ بنی اسرائیل کے
اَسماء اور ان کی وجہِ تَسْمِیَہ:
اس سورۂ مبارکہ کے چند
نام ہیں :
(1)…سورۂ اِسراء۔ اسراء
کا معنی ہے رات کوجانا، اور اس سورت کی پہلی آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے رات کے مختصر حصے میں
مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس جانے کاذکر ہے اس مناسبت سے اسے’’ سورۂ اِسراء ‘‘ کہتے
ہیں ۔
(2)…سورۂ سبحان۔ سبحان
کا معنی ہے پاک ہونا، اور اس سور ت کی ابتداء لفظِ ’’سبحان ‘‘ سے کی گئی اس مناسبت
سے اسے’’ سورۂ سبحان ‘‘کہتے ہیں ۔
(3)…بنی اسرائیل۔ اسرائیل
کا معنی ہے اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ، یہ حضرت
یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کا لقب ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کو ’’بنی
اسرائیل ‘‘کہتے ہیں ، اس سورت میں بنی اسرائیل کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کے وہ
اَحوال بیان کئے گئے ہیں جو دیگر سورتوں میں بیان نہیں ہوئے، اس مناسبت سے اس
سورت کو’’بنی اسرائیل‘‘ کہتے ہیں اور یہی اس کا مشہور نام ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل کے
فضائل:
اس سورت کے فضائل پر
مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ فرمائیں :
(1) …حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف اور
سورۂ مریم فصاحت و بلاغت میں انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور ایک عرصہ ہوا کہ
میں نے انہیں زبانی یاد کر لیا تھا۔( بخاری، کتاب التفسیر،
سورۃ بنی اسرائیل،
۳ / ۲۵۸، الحدیث: ۴۷۰۸)
(2) …حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اس وقت تک اپنے بستر پر
نیند نہیں فرماتے تھے جب تک سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ زُمر کی تلاوت نہ کر لیں
۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۱-باب،
۴ / ۴۲۲، الحدیث: ۲۹۲۹)
مضامین
سورۂ بنی
اسرائیل کے مَضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں دینِ اسلام کے عقائد جیسے توحید، رسالت، مرنے کے
بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن اعمال کی جزا اور سزا ملنے پر زور
دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مشرکین کے کثیر شُبہات کا اِزالہ کیا گیا ہے۔ اس
کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے
گئے ہیں ۔
(1) …اس کی پہلی آیت میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عظیم معجزے معراج کا ایک حصہ بیان کیا گیا ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کے مختصر حصے میں مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس تشریف لے گئے اور یہمعجزہ اللّٰہ تعالیٰ
کی قدرت کی اور بارگاہِ الٰہی میں نبی
کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی عزت و تکریم کی روشن ترین دلیل ہے۔
(2) …بنی اسرائیل کے مُفَصّل حالات بیان کئے گئے۔
(3) … یہ بیان کیاگیا ہے کہ جو نیک اعمال کرے اور سیدھی راہ پر آئے اس
میں اس کا اپنا ہی بھلا ہے اور جو برے
اعمال کرے اور گمراہی کا راستہ اختیار کرے اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔
(4) … یہ بیان کیا گیا ہے کہ عمل کی مقبولیت کے لئے تین چیزیں درکار ہیں (1) نیک نیت۔
(2) عمل کو اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا۔ (3) ایمان۔
(5) …اجتماعی زندگی گزارنے کے بہترین اصول بیان کئے گئے ہیں جیسے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے
بارے میں دیگر اَحکام بیان کئے گئے ۔ فضول
خرچی کرنے سے منع کیا گیا اور مِیانہ رَوی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ۔ تنگدستی
کے خوف سے اولاد کو قتل کرنے، کسی کو ناحق قتل کرنے، زنا کرنے اور یتیم کا مال
ناحق کھانے سے منع کیا گیا ۔ ناپ تول میں کمی نہ کرنے اور زمین پر اِترا کر نہ چلنے کا
حکم دیاگیا۔
(6) …قرآنِ پاک نازل کرنے کے مَقاصد بیان کئے گئے۔
(7) … حضرت آد م عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتوں کا انہیں سجدہ کرنے والا واقعہ بیان کیا گیا۔
(8) …قرآنِ پاک کے بے مثل ہونے کو بیان کیاگیا۔
(9)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور فرعون کے واقعے کا کچھ حصہ بیان کیا گیا۔
(10)…قرآنِ پاک کو تھوڑ ا تھوڑا کر کے نازل کرنے کی حکمت بیان کی گئی ۔
مناسبت
سورۂ نحل
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ بنی اسرائیل کی اپنے سے ماقبل سورت ’’نحل‘‘ کے ساتھ ایک مناسبت
یہ ہے کہ سورۂ نحل کے آخر میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار ومشرکین کی طرف سے
پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے کا
حکم دیا اور سورۂ بنی اسرائیل کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان کو بیان فرمایا ۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں میں انسان پر اللّٰہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات کو بیان کیا گیا ہے۔ تیسری مناسبت یہ
ہے کہ سورۂ نحل میں بیان کیا گیا کہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ اسے اللّٰہ تعالیٰ نے نازل فرمایاہے اور سورۂ بنی اسرائیل
میں قرآنِ پاک نازل
کرنے کے مقاصد بیان کئے گئے۔