Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 36 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (36)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ:اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ۔} یعنی جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو۔ اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا ’’اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پرو ہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۶۲۳) ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’خلاصہ یہ ہے کہ ا س آیت میں جھوٹی گواہی دینے ،جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اَقوال کی مُمانعت کی گئی ہے۔(تفسیرقرطبی، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۶، ۵ / ۱۸۷، الجزء العاشر)
جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر اَحادیث:
یہاں جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت پر 3 روایات ملاحظہ ہوں:
(1)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللّٰہ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، ۳ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۳۷۳)
(2)… حضرت معاذ بن انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللّٰہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب من ردّ عن مسلم غیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۳)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللّٰہ تعالیٰ اسے (جہنم کے ایک مقام) ’’رَدْغَۃُ الْخَبَالْ‘‘ میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(کتاب الجامع فی آخر المصنّف، باب من حلّت شفاعتہ دون حدّ،۱۰ / ۳۵۳، الحدیث: ۲۱۰۶۹)
اِس آیت اور دیگر روایات کو سامنے رکھنے کی شدید حاجت ہے کیونکہ آج کل الزام تراشی کرنا اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں ، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگادیتا ہے، جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا، اب کس نے بتایا، بتانے والا کتنا معتبر تھا؟ اس کو کہاں سے پتہ چلا؟ اس کے پاس کیا ثبوت ہیں ؟ کوئی معلوم نہیں ۔
{كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا:ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔}آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قرآن وحدیث سننے، علم و حکمت اور وعظ و نصیحت کی اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا غیبت سننے، لَغْو اور بیکار باتیں سننے، جِماع کی باتیں سننے ، بہتان، زنا کی تہمت ، گانے، باجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں ، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یاغلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات ہی ہوتے تھے۔ اس آیت کی مناسبت سے ایک مسئلہ بھی ہے کہ خیال ہی خیال میں کسی عورت سے بدکاری کرنا بھی حرام ہے اور یہ دل کے زنا میں داخل ہوگا۔