banner image

Home ur Surah Al Isra ayat 60 Translation Tafsir

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل (اَلْاَسْرَاء)

Al Isra

HR Background

وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِؕ-وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِؕ-وَ نُخَوِّفُهُمْۙ-فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا(60)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب ہم نے تم سے فرمایا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں اور ہم نے نہ کیا وہ دکھاوا جو تمہیں دکھایا تھا مگر لوگوں کی آزمائش کو اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو انہیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جب ہم نے تم سے فرمایا: بیشک سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں اور ہم نے آپ کو جو مشاہدہ کرایا اسے لوگوں کیلئے آزمائش بنادیااور اس درخت کو بھی جس پرقرآن میں لعنت کی گئی ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو یہ ڈرانا ان کی بڑی سرکشی میں اضافہ کردیتاہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ: اور جب ہم نے تم سے فرمایا۔} یعنی فرمایا گیا کہ سب لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے قبضۂ قدرت میں  ہیں  تو آپ تبلیغ فرمائیے اور کسی کا خوف نہ کیجئے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ آپ کا نگہبان ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۱۷۹-۱۸۰)

اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اِحاطہ کی نسبت سے کیا مراد ہے؟

            یاد رکھیں  کہ قرآن و حدیث میں  جہاں  بھی یہ مذکورہو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ گھیرے ہوئے ہے یا احاطہ کئے ہوئے ہے تو اس سے مرادیہ ہوتا ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کا علم اور قدرت سب کو گھیر ے ہوئے ہے، نہ کہ خود رب تعالیٰ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات جسمانی اعتبار سے گھیرنے او ر گھرنے سے پاک ہے کہ وہ جسم سے پاک ہے۔

{اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ:مگر لوگوں  کیلئے آزمائش۔} ارشاد فرمایا کہ شب ِ معراج بیداری کی حالت میں  جو آیات ِ الٰہیہ کا آپ کومعائنہ کروایا گیا تو وہ لوگوں  کیلئے ایک آزمائش تھا چنانچہ جب رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں  کو واقعہ معراج کی خبر دی توکفار نے اس کی تکذیب کی اور بعض مسلمان بھی مُرتد ہوگئے اور کفار مذاق کے طور پر بیتُ المقدس کی عمارت کا نقشہ دریافت کرنے لگے ۔حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سارا نقشہ بتادیا تو اس پر کفار آپ کو جادوگر کہنے لگے۔ اس آیت میں  معراجِ جسمانی کا ثبوت ہے کیونکہ مشرکین نے اس کا انکار کیا اور فتنہ اٹھایا، اگر یہ صرف خواب کی معراج ہوتی تو نہ اس کا انکار ہوتا اور نہ فتنہ۔ یہاں  دکھانے سے معراج کی رات کی وہ سیر ہے جس کی خبر حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مکہ والوں  کو دی ، حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سن کراسے ماننے کی وجہ سے صدیق بن گئے اور کفارِ مکہ سن کر ا س کا انکار کرنے کی وجہ سے زندیق بن گئے ۔ غرضیکہ معراج کو مان کر کوئی صدیق بنا اور کوئی انکار کرکے زندیق ہوا۔

{وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ: اور لعنتی درخت۔} یعنی زقوم کا درخت جو جہنم میں  پیدا ہوتا ہے، اس کو سبب ِآزمائش بنادیا یہاں  تک کہ ابوجہل نے کہا کہ اے لوگو! محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہیں  جہنم کی آگ سے ڈراتے ہیں  کہ وہ پتھروں  کو جلا دے گی ،پھر یہ بھی فرماتے ہیں  کہ اس میں  درخت اُگیں  گے۔ آگ میں  درخت کہاں  رہ سکتا ہے؟ یہ اعتراض کفار نے کیا اور قدرتِ الٰہی سے غافل رہے اور یہ نہ سمجھے کہ اُس قادرِ مختار کی قدرت سے آگ میں  درخت پیدا کرنا کچھ بعید نہیں۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۱۸۰،  روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۰، ۵ / ۱۷۸، ملتقطاً)