banner image

Home ur Surah Al Isra ayat 63 Translation Tafsir

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل (اَلْاَسْرَاء)

Al Isra

HR Background

قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا(63)وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْهِمْ بِخَیْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا(64)

ترجمہ: کنزالایمان فرمایا دور ہو تو ان میں جو تیری پیروی کرے گا تو بیشک تم سب کا بدلہ جہنم ہے بھرپور سزا۔ اور ڈِگا دے ان میں سے جس پر قدرت پائے اپنی آواز سے اور ان پر لام باندھ لا اپنے سواروں اور اپنے پیادوں کا اور ان کا ساجھی ہو مالوں اور بچو ں میں اور انہیں وعدہ دے اور شیطان انہیں وعدہ نہیں دیتا مگر فریب سے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اللہ نے فرمایا:چلا جا تو ان میں جو تیری پیروی کرے گا تو بیشک جہنم تم سب کی بھرپور سزا ہے۔ اور تو اپنی آواز کے ذریعے جسے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کے ذریعے چڑھائی کردے اور مالوں اور اولاد میں توان کا شریک ہوجا اور ان سے وعدے کر تا رہ اور شیطان ان سے دھوکے ہی کے وعدے کرتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اسْتَفْزِزْ:اور پھسلا دے۔} اس سے پہلی آیت میں  شیطان کے جواب میں  اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ تو یہاں  میری بارگاہ سے نکل جا اور تجھے قیامت تک کی مہلت دی گئی ہے اور یاد رکھ کہ جو تیری پیروی کرے گا تو اسے جہنم کی بھرپور سزا ملے گی اور اس آیت میں اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ نے مزید فرمایا کہ تو اپنی آواز کے ذریعے جسے پھسلا سکتا ہے پھسلا دے اور ان پر اپنے سواروں  اور پیادوں  کے ذریعے چڑھائی کردے یعنی اپنے تمام مکروفریب کے جال اور اپنے تمام لشکر ان کے خلاف استعمال کرلے اور تجھے مہلت دی جاتی ہے کہ گناہ کروا کر ان کے مالوں  اور اولاد میں  توان کا شریک ہوجا اور ان سے جھوٹے وعدے کرتا رہ۔ شیطان کے پھسلانے کے بارے میں  علماء نے فرمایا کہ اس کا پھسلانا وسوسے ڈالنا اور معصیت کی طرف بلانا ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے مراد گانے باجے اور لہو و لعب کی آوازیں  ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے کہ جو آواز اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف منہ سے نکلے وہ شیطانی آواز ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۴،۵ / ۱۸۰-۱۸۱، خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۱۸۱، ملتقطاً)مال و اولاد میں  شریک ہونے سے کیا مراد ہے ، اس سلسلے میں  زجاج نے کہا کہ جو گناہ مال میں  ہو یا اولاد میں  ہو، ابلیس اس میں  شریک ہے، مثلاً سود اور مال حاصل کرنے کے دوسرے حرام طریقے اور یونہی فسق و ممنوعات میں  خرچ کرنا ، نیز زکوٰۃ نہ دینا یہ مالی اُمور ہیں  جن میں  شیطان کی شرکت ہے جبکہ زنا اور ناجائز طریقے سے اولاد حاصل کرنا یہ اولاد میں  شیطان کی شرکت ہے۔( مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۳۰، ملخصاً)