Home ≫ ur ≫ Surah Al Isra ≫ ayat 79 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(79)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ:اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو ۔} نمازِ تہجد سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض تھی، جمہور کا یہی قول ہے جبکہ حضورِاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت کے لئے یہ نماز سنت ہے۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۷۹، ۳ / ۱۸۵-۱۸۶، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۱، ملتقطاً)
تہجد کے فضائل:
اِس آیت میں تہجد کا بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا ہے، اس مناسبت سے نمازِ تہجد کی فضیلت پر مشتمل5اَحادیث درج ذیل ہیں ۔
(1)…حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات میں قیام کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف قربت کا ذریعہ اور گناہوں کو مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۳ الحدیث: ۳۵۶۰)
(2)…حضرت اسماء بنتِ یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے، اس وقت منادی پکارے گا، کہاں ہیں وہ جن کی کروٹیں خواب گاہوں سے جدا ہوتی تھیں ؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اور تھوڑے ہوں گے یہ جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے پھر اور لوگوں کے لیے حساب کا حکم ہوگا۔( شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، تحسین الصلاۃ والاکثار منہا لیلاً ونہاراً۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۶۹، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جنت میں ایک بالا خانہ ہے کہ باہر کا اندر سے دکھائی دیتا ہے اور اندر کا باہر سے۔ حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کس کے لیے ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اُس کے لیے جو اچھی بات کرے اور کھانا کھلائے اور رات میں قیام کرے جب لوگ سوتے ہوں ۔( مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، صلاۃ الحاجۃ، ۱ / ۶۳۱، الحدیث: ۱۲۴۰)
(4)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جوشخص رات میں بیدار ہواور اپنے اہلِ خانہ کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں میں لکھے جائیں گے۔(مستدرک، من کتاب صلاۃ التطوّع، تودیع المنزل برکعتین، ۱ / ۶۲۴، الحدیث: ۱۲۳۰)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’’میں نے عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے کوئی ایسا کام ارشاد فرمائیے جسے میں اختیار کرو ں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ ارشاد فرمایا ’’سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو، رات میں نماز پڑھو جب لوگ سوتے ہوں توسلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔( مستدرک، کتاب الاطعمۃ، فضیلۃ اطعام الطعام، ۵ / ۱۷۹، الحدیث: ۷۲۵۶)
تہجد سے متعلق چند مسائل:
یہاں نمازِ تہجد کے بارے میں چند شرعی مسائل یاد رکھیں :
(1)…صَلَاۃُ اللَّیْل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کی نماز کے بعد رات میں سو کر اُٹھیں اور نوافل پڑھیں ، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں ۔
(2)…تہجد نفل کا نام ہے اگر کوئی عشا کے بعد سو گیا پھر اٹھ کر قضا نماز پڑھی تو اُس کو تہجد نہ کہیں گے۔
(3)…کم سے کم تہجد کی دو رکعتیں ہیں اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آٹھ تک ثابت ہیں ۔
(4)…جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اُسے تہجد چھوڑنا مکروہ ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ارشاد فرمایا: ’’اے عبداللّٰہ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اُٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔( بخاری، کتاب التہجد، باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ، ۱ / ۳۹۰، الحدیث: ۱۱۵۲)
{عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا:قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔} آیت میں مقامِ محمود کا ذکر ہے اور مقامِ محمود مقامِ شفاعت ہے کہ اس میں اوّلین و آخرین حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حمد کریں گے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی :مقامِ محمود کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وہ شفاعت ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ بنی اسرائیل، ۵ / ۹۳، الحدیث: ۳۱۴۸)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر یہ آیت اور مختلف کتب سے اوپر بیان کردہ حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں’’اور شفاعت کی حدیثیں خود متواتر ومشہور اور صحاح وغیرہ میں مروی ومسطور ۔ اس دن آدم صفی اللّٰہ سے عیسیٰ کلمۃ اللّٰہ تک سب انبیاء اللّٰہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفسی نفسی فرمائیں گے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’اَنَا لَھَا اَنَا لَھَا ‘‘میں ہوں شفاعت کے لئے ، میں ہوں شفاعت کے لئے (فرمائیں گے) انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اور وہ متکلم ،سب سربگریبان ، وہ ساجد وقائم، سب محلِ خوف میں ، وہ آمن وناہم (یعنی خود امن میں اور امت کے امن کے خواہش مند)، سب اپنی فکر میں ، انہیں فکر ِعوالم ،سب زیرِ حکومت، وہ مالک وحاکم، بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کرینگے ، ان کا رب انہیں فرمائے گا ’’یَا مُحَمَّدْ اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ‘‘ اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور عرض کرو کہ تمہاری عرض سنی جائے گی، اور مانگو کہ تمہیں عطاہوگا ، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے ۔ اس وقت اولین وآخرین میں حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) کی حمد وثناء کا غلغلہ پڑ جائے گا اور دوست ، دشمن ، موافق ، مخالف، ہر شخص حضور(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)کی افضلیت ِکُبریٰ وسیادتِ عظمیٰ پر ایمان لائے گا۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۷۰-۱۷۱)
حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے وسیلہ اور مقامِ محمود کی دعا مانگنے کی فضیلت:
حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اذان سن کر یہ دعا کرے ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَانِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ‘‘یعنی اے اللّٰہ ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمد مصطفٰی کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقامِ محمود پر کھڑے کرنا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ تو اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہو گئی۔( بخاری، کتاب الاذان، باب الدعاء عند النداء، ۱ / ۲۲۴، الحدیث: ۶۱۴)
اور مسلم شریف کی روایت میں اس دعا کے پڑھنے سے پہلے درود پڑھنے کا بھی فرمایا گیا ہے۔( مسلم، کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذّن لمن سمعہ ثمّ صلّی علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ،ص۲۰۳، الحدیث: ۱۱(۳۸۴))
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یقینی طور پر وسیلہ اور مقامِ محمود عطا فرمائے گا ، چاہے مسلمان نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کی دعا کریں یا نہ کریں کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا، البتہ مسلمانوں کو اس کی دعا مانگنے کی جو ترغیب دی گئی ہے وہ اس لئے ہے کہ اس میں ان کا اپنا عظیم فائدہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے انہیں سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت نصیب ہو گی۔