banner image

Home ur Surah Al Isra ayat 96 Translation Tafsir

بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْل (اَلْاَسْرَاء)

Al Isra

HR Background

وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰۤى اِلَّاۤ اَنْ قَالُـوْۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا(94)قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓىٕكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَىٕنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا(95)قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا(96)

ترجمہ: کنزالایمان اور کس بات نے لوگوں کو ایمان لانے سے روکا جب ان کے پاس ہدایت آئی مگر اسی نے کہ بولے کیا اللہ نے آدمی کو رسول بناکر بھیجا۔ تم فرماؤ اگر زمین میں فرشتے ہوتے چین سے چلتے تو ان پر ہم رسول بھی فرشتہ اتارتے۔ تم فرماؤ اللہ بس ہے گواہ میرے تمہارے درمیان بیشک وہ اپنے بندوں کو جانتا دیکھتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور لوگوں کو ایمان لانے سے ان کے پاس ہدایت آجانے کے بعد اسی بات نے منع کررکھا ہے کہ وہ کہتے ہیں : کیا اللہ نے ایک آدمی کو رسول بنا کر بھیجا؟ تم فرماؤ: اگر زمین میں فرشتے ہوتے جو اطمینا ن سے چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتے کو ہی رسول بنا کر بھیجتے ۔ تم فرماؤ : میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے ،بیشک وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَنْ یُّؤْمِنُوْا: کہ ایمان لائیں ۔} ارشاد فرمایا ، حالانکہ لوگوں  کے پاس ہدایت آچکی ہے مگر انہیں  صرف اس بات نے ایمان لانے سے روک رکھا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں  کہ کیا اللّٰہ تعالیٰ نے آدمی کو رسول بناکر بھیجا ہے؟ یعنی وہ لوگ  رسولوں  کو بشر ہی جانتے رہے اور اُن کے منصب ِنبوت اور اللّٰہ تعالیٰ کے عطا فرمائے ہوئے کمالات کے معترف نہ ہوئے، یہی اُن کے کفر کی اصل وجہ تھی اور اسی لئے وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی فرشتہ کیوں  نہیں  بھیجا گیا۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۴، ۳ / ۱۹۲-۱۹۳، ملخصاً)اسی کا جواب اگلی آیت میں  دیا گیا۔

{ لَوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓىٕكَةٌ: اگر زمین میں  فرشتے ہوتے۔} کفار کے جواب میں  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ تم ان سے فرما دو کہ اگر انسانوں  کی بجائے زمین میں  صرف فرشتے رہائش پذیر ہوتے جو یہاں  چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتے کو ہی رسول بنا کر بھیجتے لیکن جب زمین میں  انسان بستے ہیں  تو رسول بھی انسان ہی بنایا جاتا ہے۔ فرشتوں  کیلئے فرشتہ ہی رسول بھیجا جاتا  کیونکہ وہ اُن کی جنس سے ہوتا لیکن جب زمین میں  آدمی بستے ہیں  تو اُن کا ملائکہ میں  سے رسول طلب کرنا نہایت ہی بے جا ہے۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۵، ۵ / ۲۰۵، ملخصاً)

{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں  کہ میرے اور تمہارے درمیان اس بات پر اللّٰہ تعالیٰ ہی گواہ کافی ہے کہ جس چیز کے ساتھ مجھے بھیجا گیا وہ میں  نے تم تک پہنچا دی اور تم نے (اسے) جھٹلایا اور دشمنی کی، بے شک وہ اپنے بندوں  یعنی رسولوں  اور جن کی طرف انہیں  بھیجا گیا ان کے ظاہری اور باطنی تمام احوال کی خبر رکھنے والا اور انہیں  دیکھنے والا ہے تو وہ انہیں  اس کی جزا دے گا۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۹۶، ۵ / ۲۰۵)