Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 109 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا(109)
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ:تم فرمادو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے کلمات لکھے جائیں اور اُن کے لئے تمام سمندروں کا پانی سیاہی بنادیا جائے اور تمام مخلوق لکھے تو وہ کلمات ختم نہ ہوں اور یہ تمام پانی ختم ہوجائے اور اتنا ہی اور بھی ختم ہوجائے ۔ مُدَّعا یہ ہے کہ اس کے علم و حکمت کی کوئی انتہاء نہیں ۔ شانِ نزول : حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا: اے محمد! (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ کا خیال ہے کہ ہمیں حکمت دی گئی اور آپ کی کتاب میں ہے کہ جسے حکمت دی گئی اُسے خیرِ کثیر دی گئی، پھر آپ کیسے فرماتے ہیں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے! اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ جب آیت ِکریمہ ’’ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا ‘‘ نازل ہوئی تو یہودیوں نے کہا کہ ہمیں توریت کا علم دیا گیا اور اس میں ہر شے کا علم ہے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ مدعا یہ ہے کہ ہر شے کا علم بھی علمِ الٰہی کے حضور قلیل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے علم سے اتنی بھی نسبت نہیں رکھتا جتنی ایک قطرے کو سمندر سے ہو۔( خازن، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۳ / ۲۲۷-۲۲۸)