Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 18 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ تَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا وَّ هُمْ رُقُوْدٌ ﳓ وَّ نُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ﳓ وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِؕ-لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَّ لَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا(18)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ تَحْسَبُهُمْ اَیْقَاظًا: اور تم انہیں جاگتے ہوئے خیال کرو گے۔} اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم انہیں دیکھو توتم انہیں جاگتے ہوئے خیال کرو گے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم سال میں ایک مرتبہ دس محرم شریف کو ان کی دائیں اور بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں تاکہ ایک ہی طرح لیٹے رہنے سے ان کے بدن کو نقصان نہ پہنچے اور ان کا کتا غار کی چوکھٹ پراپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے اور وہ بھی ان کے ساتھ کروٹ بدلتا ہے یعنی جب اصحاب ِکہف کروٹ بدلتے ہیں تو وہ بھی کروٹ بدلتا ہے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۲۰۴-۲۰۵، ملخصاً)
کتے کے ضَرَر سے محفوظ رہنے کاوظیفہ:
تفسیر ثعلبی میں ہے کہ جو کوئی ان کلمات ’’وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِ‘‘ کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھے تو کتے کے ضرر سے امن میں رہے گا۔( تفسیر ثعلبی، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶ / ۱۶۰)
اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے محبت کی برکت:
ابو فضل جوہری نے کہا ’’بے شک جس نے نیک لوگوں سے محبت کی وہ ان کی برکتیں پائے گا، ایک کتے نے نیک بندوں سے محبت کی اور ان کی صحبت میں رہا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنی پاک کتاب میں فرمایا۔ ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ جب نیک بندوں اور اولیاءِ کرام کی صحبت میں رہنے کی برکت سے ایک کتا اتنا بلند مقام پا گیا حتّٰی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ا س کا ذکر قرآنِ پاک میں فرما یا تو ا س مسلمان کے بارے میں تیرا کیا گمان ہے جو اولیاء اور صالحین سے محبت کرنے والا اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے والا ہے بلکہ اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے تسلی ہے جو کسی بلند مقام پر فائز نہیں ۔( قرطبی، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۵ / ۲۶۹، الجزء العاشر) یعنی ان کیلئے تسلی ہے کہ وہ اپنی اس محبت و عقیدت کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخ رُو ہوں گے۔
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کب قائم ہو گی؟ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز ادا کی اور ا س کے بعد فرمایا ’’قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں ہوں ۔ ارشاد فرمایا: تم نے ا س کی کیا تیاری کی ہے؟ عرض کی : میرے پاس بہت زیادہ نمازیں اور روزے تو نہیں ہیں البتہ میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرتا ہوں ۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مرد اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور اے شخص! تم ان کے ساتھ ہو گے جن سے محبت کرتے ہو۔‘‘ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے زیادہ مسلمانو ں کو خوش نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا تھا۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ المرء مع من احبّ، ۴ / ۱۷۲، الحدیث: ۲۳۹۲)
{لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَیْهِمْ:اے سننے والے ! اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لے۔} آیت میں مزید فرمایا کہ اے سننے والے ! اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اور ان کی ہیبت سے بھر جائے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی ہیبت سے ان کی حفاظت فرمائی ہے کہ ان تک کوئی جا نہیں سکتا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت امیر ِمعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ ِروم کے وقت کہف کی طرف گزرے تو انہوں نے اصحابِ کہف کے غار میں داخل ہونا چاہا، حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے انہیں منع کیا اور یہ آیت پڑھی پھر ایک جماعت حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حکم سے داخل ہوئی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہوا چلائی کہ سب جل گئے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۲۰۵)