Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 24 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا(23)اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ٘-وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا(24)
تفسیر: صراط الجنان
{اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے۔} یہاں دو آیتوں میں اسلامی تعلیمات کی ایک بنیادی چیز بیان فرمائی کہ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے ارادے میں اِنْ شَاءَ اللّٰہ ضرور کہا کرے ، چنانچہ فرمایا گیا کہ اور ہر گز کسی چیز کے متعلق نہ کہنا کہ میں کل یہ کرنے والا ہوں مگر ساتھ ہی یہ کہا کرو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو میں کرلوں گا ، مراد یہ ہے کہ جب کسی کام کا ارادہ ہو تو یہ کہنا چاہیے کہ اِنْ شَاءَ اللّٰہ ایسا کروں گا، بغیر اِنْ شَاءَ اللّٰہ کے نہ کہے ۔اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جب روح،اَصحاب ِکہف اور حضرت ذوالقر نین کے بارے میں دریافت کیا تھا تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ کل بتاؤں گا اور اِنْ شَاءَ اللّٰہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۳ / ۲۰۷)
{وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ:اور جب تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلو۔} حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ اگر اِنْ شَاءَ اللّٰہ کہنا یاد نہ رہے تو جب یاد آئے کہہ لو۔ یاد آنے کی مدت کے بارے میں حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگرچہ ایک سال بعد یاد آئے اور امام حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ہے کہ جب تک اس مجلس میں رہے ، اِنْ شَاءَ اللّٰہ کہہ لے۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۰۷)
اس آیت کے معنی سے متعلق تفسیروں میں کئی قول مذکور ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آیت کا معنٰی یہ ہے ’’اگرکسی نماز کو بھول گیا تو یاد آتے ہی ادا کرلے۔( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۴۸) نماز کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو نماز پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہئے کہ جب یاد آئے (اس وقت) نماز پڑھ لے، اس کا یہی کفارہ ہے۔( بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب من نسی صلاۃ فلیصلّ اذا ذکرہا۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۱۷، الحدیث: ۵۹۷)
{وَ قُلْ عَسٰى:اور یوں کہو کہ قریب ہے ۔} ارشاد فرمایا ’’ یوں کہو کہ قریب ہے کہ میرا رب میری نبوت پر دلائل کیلئے اصحابِ کہف کے اس واقعے سے زیادہ قریب ہدایت کا کوئی راستہ دکھائے یعنی ایسے معجزات عطا فرمائے جو میری نبوت پر اس سے بھی زیادہ ظاہر دلالت کریں جیسے کہ اَنبیاء ِسابقین کے اَحوال کا بیان اور غیوب کا علم اور قیامت تک پیش آنے والے واقعات کا بیان اور چاند کا دو ٹکڑے ہونا اور حیوانات کا حضور ِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دینا، وغیرہ۔( خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۲۰۸، جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۴۱۰-۴۱۱، ملتقطاً)