Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 28 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(28)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ:جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سردارانِ کفار کی ایک جماعت نے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ ہمیں غُرباء اور شکستہ حالوں کے ساتھ بیٹھتے شرم آتی ہے ۔ اگر آپ انہیں اپنی صحبت سے جدا کردیں تو ہم اسلام لے آئیں اور ہمارے اسلام لانے سے خلقِ کثیر اسلام لے آئے گی ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(روح البیان، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۸، ۵ / ۲۳۸) اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرمایا گیا کہ اپنی جان کو ان لوگوں کے ساتھ مانوس رکھ جو صبح و شام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں یعنی جو اِخلاص کے ساتھ ہر وقت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طاعت میں مشغول رہتے ہیں ۔
آیت’’وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اِس آیتِ مبارکہ سے بہت سے مسائل معلوم ہوئے ۔
(1)… نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تربیت خود ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے جیسے یہاں ہوا کہ ایک معاملہ در پیش ہوا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خود تربیت فرمائی اور آپ کی کمال کی طرف رہنمائی فرمائی۔
(2)…یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھوں کے ساتھ رہنا اچھا ہے اگرچہ وہ فُقراء ہوں اور بروں کے ساتھ رہنا برا ہے اگرچہ وہ مالدار ہوں ۔
(3)… یہ بھی معلوم ہوا کہ صبح و شام خصوصیت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکرکرنا بہت افضل ہے۔ قرآنِ پاک میں بطورِ خاص صبح و شام کے ذکر کو بکثرت بیان فرمایا ہے ،جیسے اِس آیت میں بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتوں میں ہے۔
(4)…یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صالحین سے بطورِ خاص محبت ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔
(5)… صالحین کی دو علامتیں بھی اس آیت میں بیان فرمائیں اول یہ کہ وہ صبح و شام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ ہر عمل سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔
(6)…مزید اِس آیت میں دنیا داروں کی طرف نظر رکھنے اور ان کی پیروی سے ممانعت کے بارے میں حکم ہے۔اس حکم میں قیامت تک کے مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ غافلوں ، متکبروں ، ریاکاروں ، مالداروں کی نہ مانا کریں اور ان کے مال ودولت پر نظریں نہ جمائیں بلکہ مخلص، صالح، غُرباء و مَساکین کے ساتھ تعلق رکھیں اور ان ہی کی اطاعت کیا کریں ۔ دنیا کی محبت میں گرفتار مالداروں کی بات ماننا دین کوبرباد کر دیتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ مال اور مالدار فی نَفْسِہٖ نہ برے ہیں اور نہ اچھے بلکہ مال کا غلط استعمال اور ایسے مالدار برے ہیں اور چونکہ مالدار عموماً نفس پرستی میں پڑ جاتے ہیں اسی لئے ان کی مذمت زیادہ بیان کی جاتی ہے ۔ اسی سے ملتا جلتا ایک حکم حدیث ِ مبارک میں ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت میں سے کچھ لوگ علمِ دین سیکھیں گے ، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امیروں کے پاس ا س لئے جاتے ہیں تاکہ ان سے دنیا حاصل کرلیں اور اپنے دین کو ان سے جدا رکھتے ہیں حالانکہ یہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ کانٹے والے درخت سے پھل توڑنے میں کانٹے ہی ہاتھ آتے ہیں اسی طرح وہ ان کے قرب میں گناہوں سے نہیں بچ سکتے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۵۵)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ اگر علماء علم حاصل کرنے کے بعد اسے محفوظ رکھتے اور اسے اہل لوگوں کے سامنے پیش کرتے تو اہلِ زمانہ کے سردار بن جاتے لیکن انہوں نے اسے دنیا والوں پر اپنی دنیا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا اس وجہ سے ذلیل ہو گئے ۔ میں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا ہے ’’جس شخص کی ساری فکر آخرت کے متعلق ہے تو اللّٰہ تعالیٰ دنیا کے غموں سے اس کی کفایت فرمائے گا اور جو شخص دنیاوی اُمور میں پریشان ہوتا رہے گا اللّٰہ تعالیٰ کو اس کی پروا نہیں چاہے وہ کسی وادی میں بھی گر کر مرے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۵۷)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص علم صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ دنیاوی مَقاصد کے لئے حاصل کرے تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو ہر گز نہیں پائے گا۔(ابوداؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللّٰہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۶۶۴)