Home ≫ ur ≫ Surah Al Kahf ≫ ayat 45 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(45)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:اور ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو۔} اِس رکوع میں دُنْیَوی زندگی کے قابلِ فنا ہونے اور قیامت کے حساب کتاب کے بارے میں سمجھایا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں کے سامنے دنیا کی حقیقت بیان کرو اور اس کے سمجھانے کیلئے اس مثال کا سہارا لو کہ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی ہریالی اور سرسبزی و شادابی، جو ہمارے نازل کئے ہوئے پانی کے سبب زمین سے نکلی ہو اور اس پانی کی وجہ سے زمین پر وہ شادابی اور تازگی پھیل جائے لیکن پھر کچھ ہی عرصے کے بعد وہ سبزہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اِدھر سے اُدھر اڑائے پھرتی ہیں اور اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی ۔ فرمایا کہ دنیاوی زندگی کی مثال بھی ایسے ہی ہے کہ جس طرح سبزہ خوشنما ہونے کے بعد فنا ہوجاتا ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا، یہی حالت دنیا کی بے اعتبار حیات کی ہے اس پر مغرور و شیدا ہونا عقل مند کا کام نہیں اور یہ سب فنا و بقا اللّٰہ کی قدرت سے ہے۔( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۲۴۹-۲۵۰، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۴۵، ص۶۵۳، ملتقطاً)
نوٹ:اس آیت میں بیان کی گئی مثال مزید تفصیل کے ساتھ سورۂ یونس کی آیت نمبر 24 میں گزر چکی ہے۔