Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 114 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(114)
تفسیر: صراط الجنان
{ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ: عیسیٰ بن مریم نے عرض کی۔} حواریوں نے جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمان کے مطابق عمل کیا تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: اے اللہ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے موجودہ لوگوں کیلئے اور ہمارے بعد میں آنے والوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کی دلیل ہوجائے اور سب کیلئے عیدہوجائے یعنی ہم اس کے اترنے کے دن کو عید بنائیں ، اس کی تعظیم کریں ،خوشیاں منائیں ،تیری عبادت کریں اورشکر بجالائیں۔
نزولِ رحمت کے دن کو عید بنانا صالحین کا طریقہ ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اُس دن کو عید بنانا، خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا اور شکرِ الٰہی بجالانا صالحین کا طریقہ ہے اور بیشک تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری یقینا قطعاً حتماً اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے۔ اس لئے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرِ الٰہی بجالانا اور فرحت و سُرور کا اظہار کرنا مستحسَن و محمود اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا’’ یہ کیا ہے؟ یہودیوں نے عرض کی:یہ اچھا دن ہے۔ اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کا روزہ رکھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تمہاری نسبت میرا حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے تعلق زیادہ ہے چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔( بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، ۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴)
ترمذی شریف میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ایک یہودی کی موجودگی میں یہ آیت پڑھی
’’ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان:آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔‘‘
یہ آیت سن کر اس یہودی نے کہا: اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اسے عید بنالیتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا : یہ آیت ہماری دو عیدوں کے دن میں اتری یعنی جمعہ اور عرفہ کے دن۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۳، الحدیث: ۳۰۵۵)
اس کی شرح میں مفسرِ شہیر، حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اس سے معلوم ہوا کہ جن تاریخوں میں اللہ کی نعمت ملے انہیں عید بنانا شرعاً اچھا ہے۔(مراٰۃالمناجیح، جمعہ کا باب، تیسری فصل، ۲ / ۳۱۴، تحت الحدیث: ۱۲۸۸)
نوٹ: میلاد شریف کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے علامہ اسماعیل نبہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ’’جواہرُ البحار ‘‘ کی تیسری جلد کا مطالعہ فرمائیں۔