Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 118 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(118)
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنْ
تُعَذِّبْهُمْ : اگر تو انہیں عذاب دے۔}حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معلوم
ہوگا کہ قوم میں بعض لوگ کفر پر مصر رہے، بعض شرفِ ایمان سے مشّرف ہوئے اس لئے
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں یہ عرض ہے کہ’’ ان میں سے جو کفرپر قائم
رہے اُن پر تو عذاب فرمائے تو بالکل حق و بجا اور عدل وانصاف ہے کیونکہ انہوں نے
حجت تمام ہونے کے بعد کفراختیار کیا اور جو ایمان لائے انہیں تو بخشے تو تیرا فضل
وکرم ہے اور تیرا ہر کام حکمت ہے۔
امتِ مرحوم کے حق میں دعا:
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اس آیتِ مبارکہ کو پڑھ کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی امت کیلئے دعا فرمائی چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآن پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی ’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ
النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ۔۔۔الآیہ ‘‘ اے میرے رب!ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا
ہے، جو شخص میری پیروی کرے گا وہ میرے راستہ پر ہے۔‘‘ اور وہ آیت پڑھی جس میں
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ قول ہے’’ اِنْ
تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ
الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ‘‘ اے اللہ! اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر
تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔پھر نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دست ِدعا بلند کر دئیے اور روتے ہوئے عرض
کرنے لگے :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میری امت ، میری
امت۔ اللہ تعالیٰ نے
فرمایا: اے جبرئیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے معلوم کرو (حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) کہ ان پر اس قدر گریہ
کیوں طاری ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے
اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معلوم
کر کے اللہ تعالیٰ کی
بارگاہ میں جواب عرض کردیا (حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) اللہ تعالیٰ نے جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سے
فرمایا:اے جبرائیل! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی امت کی بخشش کے
معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔( مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ
وسلم لامتہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہونے والی باتیں :
اس حدیث پاک سے چند باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…رسول کریم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت پر کمال درجے کے شفیق ومہربان تھے اور امت
کی بھلائی اور بہتری میں کوشاں رہتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی امت کے لئے کسی شرط اور قید کے بغیر بخشش کی
دعا مانگی۔
(2)…اس امت مرحوم کے
لئے عظیم بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کی بخشش کے معاملے میں اپنے
حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی فرمائے گا ۔
(3)… اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مقام بہت بلند ہے کہ سب کچھ جاننے والا ہونے
کے باوجود حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں بھیجا اور اس سے آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت
اور شرف کوظاہر فرمایا۔
(4)…نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت کے اتنے اعلیٰ
مقام پر فائز ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عظمتوں کو ظاہر فرماتا اور آپ کو راضی
فرماتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،
کتاب الفتن، باب الحوض والشفاعۃ، الفصل الاول، ۹ / ۵۳۰، تحت الحدیث: ۵۵۷۷، ملخصاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِ بارگاہِ الٰہی میں عرض
کرتے ہیں اور انہی کے الفاظ میں ہم بھی عرض گزار ہیں کہ :
ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے
اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے
ان کی امّت میں بنایا انھیں رحمت بھیجا
یوں نہ فرما کہ ترا رحم میں دعویٰ کیا ہے
صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے