banner image

Home ur Surah Al Maidah ayat 20 Translation Tafsir

اَلْمَـآئِدَة

Al Maidah

HR Background

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ﳓ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(20)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے اے میری قوم اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو کہ تم میں سے پیغمبر کیے اور تمہیں بادشاہ کیا اور تمہیں وہ دیا جو آج سارے جہان میں کسی کو نہ دیا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب اس نے تم میں سے انبیاء پیدا فرمائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو سارے جہان میں کسی کو نہ دیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیَٰ کا شکر اداکرنے کی تلقین فرمائی اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کا ذکر فرمایا اور بطورِ خاص تین نعمتیں یہاں بیان فرمائیں :

(1)…بنی اسرائیل میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے۔

(2)…بنی اسرائیل کو حکومت و سلطنت سے نوازا گیا۔ بنی اسرائیل آزاد ہوئے اور فرعونیوں کے ہاتھوں میں قید ہونے کے بعد اُن کی غلامی سے نجات پائی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مُلُوک یعنی بادشاہ سے مراد ہے خادموں اور سواریوں کا مالک ہونا۔ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں جو کوئی خادم اور عورت اور سواری رکھتا وہ مَلِک کہلایا جاتا ہے۔(در منثور، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲۰،۳ / ۴۶)

(3)…بنی اسرائیل کو وہ نعمتیں ملیں جو کسی دوسری قوم کو نہ ملیں جیسے من و سلویٰ اترنا، دریا کا پھٹ جانا، پانی سے چشموں کا جاری ہوجانا وغیرہا۔

میلاد منانے کا ثبوت:

          اس آیت میں بیان کی گئی پہلی نعمت سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کی تشریف آوری نعمت ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو اس کے ذکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ بَرَکات و ثمرات کا سبب ہے۔ اس سے  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا میلاد مبارک منانے اور اس کا ذکر کرنے کی واضح طور پر دلیل ملتی ہے کہ جب انبیاءِ بنی اسرائیل  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تشریف آوری نعمت ہے اور اسے یاد کرنے کا حکم ہے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری تو اس سے بڑھ کر نعمت ہے کہ اسے تو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:

لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا(آل عمران :۱۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب ان میں عظیم رسول مبعوث فرمایا۔

            لہٰذا اسے یاد کرنے کا حکم بدرجہ اولیٰ ہوگا۔

اِقتِدار ملنے پر اللہ  تعالیٰ کا شکر اد اکرنے کا بہترین طریقہ:

            اس آیت میں بیان کی گئی دوسری نعمت سے معلوم ہوا کہ حکومت و سلطنت اور اقتدار بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کے شکر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حکومت و سلطنت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلائی جائے، غریبوں کی مدد کی جائے، لوگوں کے حقوق ادا کئے جائیں ، ظلم کا خاتمہ کیا جائے اور ملک کے باشندوں کو امن وسکون کی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔

حکمرانوں کے لئے نصیحت آموز4 اَحادیث:

            یہاں حکمرانی کرنے والوں کے لئے نصیحت آموز 4احادیث ملاحظہ ہوں۔

(1)…حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، ۴ / ۴۵۶، الحدیث: ۷۱۵۰)

(2)…حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی مروی ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مسلمانوں کو جس والی کی رعایا بنایا جائے، پھر وہ والی ایسی حالت میں مرے کہ اس نے مسلمانوں کے حقوق غصب کئے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دیتا ہے۔(بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، ۴ / ۴۵۶، الحدیث: ۷۱۵۱)

(3)…حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ الجائر۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۶، الحدیث: ۱۹(۱۸۲۸))

(4)…حضرت ابومریم ازدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے کسی کام کا والی بنائے اور وہ ان کی حاجت مندی، بے کسی اور غریبی میں ان سے کنارہ کشی کرے تواللہ تعالیٰ اس کی حاجت مندی، بے کسی اور غریبی میں اسے چھوڑ دے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الخراج والفیء والامارۃ، باب فیما یلزم الامام من امر الرعیّۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۹۴۸)

اقتدار کے بوجھ سے اَشکْبار:

            حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں ’’جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مرتبۂ خلافت پر فائز ہوئے تو گھر آ کر مصلے پر بیٹھ کر رونے لگے اور اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کی: اے امیر المؤمنین! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’میری گردن پر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کابوجھ ڈال دیاگیا ہے اور جب میں نے بھوکے فقیروں ، مریضوں ، مظلوم قیدیوں ، مسافروں ، بوڑھوں ، بچوں اور عیالداروں ، الغرض پوری سلطنت کے مصیبت زدوں کی خبر گیری کے بارے میں غور کیا اور مجھے معلوم ہے کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن ان کے بارے مجھ سے باز پُرس فرمائے گا تو مجھے اس بات سے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے ان کے بارے میں جواب نہ بن پڑے! (بس اس بھاری ذمہ داری اور اس کے بارے میں باز پُرس کی فکر کی وجہ سے ) میں رو رہا ہوں۔ (تاریخ الخلفاء، عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ، ص۱۸۹)