Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 33 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِؕ-ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(33)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔} اس سے پچھلی آیات میں قتل کی ایک نَوعِیَّت یعنی ناجائز قتلوں کا ذکر کیا گیا اب دوسری نوعیت یعنی جائز قتلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ شانِ نزول : عُرَینہ قبیلے کے کچھ لوگ مدینۂ منورہ میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، انہیں وہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا: صدقہ کی اونٹنیوں کی چراگاہ میں جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو، انہوں نے اسی طرح کیا تو تندرست ہو گئے۔ پھر وہ مرتد ہو گئے، چرواہوں پرحملہ کر کے انہیں قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگ گئے۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس واقعے کی خبر پہنچی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے پیچھے لوگوں کو بھیجا جو انہیں گرفتار کر کے لے آئے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے ہاتھ پاؤں کٹوا دئیے،ا ن کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں پھر انہیں تپتے ہوئے میدان میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قصۃ عکل وعرینۃ، ۳ / ۷۸، الحدیث: ۴۱۹۲، تفسیرات احمدیہ، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۳۵۰)
اس آیتِ کریمہ میں راہزن یعنی ڈاکو کی سز اکا بیان ہے۔ راہزن جس کے لئے شریعت کی جانب سے سزا مقرر ہے اس میں چند شرطیں ہیں :
(1)… ان میں اتنی طاقت ہو کہ راہ گیر ان کا مقابلہ نہ کرسکیں اب چاہے ہتھیار کے ساتھ ڈاکہ ڈالا یا لاٹھی لے کر یا پتھر وغیرہ سے۔
(2)… بیرونِ شہر راہزنی کی ہو یا شہر میں رات کے وقت ہتھیار سے ڈاکہ ڈالا۔
(3)… دارُ الاسلام میں ہو۔
(4)… چوری کی سب شرائط پائی جائیں۔
(5)… توبہ کرنے اور مال واپس کرنے سے پہلے بادشاہِ اسلام نے ان کو گرفتار کرلیا ہو۔(عالمگیری، کتاب السرقۃ، الباب الرابع فی قطاع الطریق، ۲ / ۱۸۶)
ڈاکو کی 4سزائیں :
جن میں یہ سب شرطیں پائی جائیں ان کے لئے قرآنِ پاک میں چار سزائیں بیان کی گئی ہیں
(1)…انہیں قتل کر دیا جائے۔
(2)…سولی چڑھا دیا جائے۔
(3)…دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔
(4)… جلا وطن کر دیا جائے، ہمارے ہاں اس سے مراد قید کر لینا ہے۔
اس سزا کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ڈاکوؤں نے کسی مسلمان یا ذمی کو قتل کیا اور مال نہ لیا تو انہیں قتل کیا جائے ۔ اگر قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا تو بادشاہِ اسلام کو اختیار ہے کہ ہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کر ڈالے یا سولی دیدے یاہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کرے پھر اس کی لاش کو سولی پر چڑھا دے یا صرف قتل کردے یا قتل کرکے سولی پر چڑھا دے یا فقط سولی دیدے۔ اگر قتل نہیں کیا صرف مال لوٹا تو ان کا دایاں ہاتھ ا ور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر نہ مال لوٹا نہ قتل کیا صرف ڈرایا دھمکایا تو اس صورت میں انہیں قید کر لیا جائے یہاں تک کہ صحیح توبہ کر لے ۔ (عالمگیری، کتاب السرقۃ، الباب الرابع فی قطاع الطریق، ۲ / ۱۸۶، در مختار، کتاب السرقۃ، باب قطع الطریق، ۶ / ۱۸۱-۱۸۳، ملخصاً)
اسلامی سزاؤں کی حکمت:
اسلا م نے ہر جرم کی سزا اس کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف رکھی ہے، چھوٹے جرم کی سزا ہلکی اور بڑے کی اس کی حیثیت کے مطابق سخت سزا نافذ کی ہے تاکہ زمین میں امن قائم ہو اور لوگ بے خوف ہوکر سکون اور چین کی زندگی بسر کرسکیں۔ ا س کے علاوہ اور بھی بے شمار حکمتیں ہیں۔ ایک اس ڈاکہ زنی کی سزا ہی کو لے لیجئے کہ جب تک اس پر عمل رہا تو تجارتی قافلے اپنے قیمتی سازو سامان کے ساتھ بے خوف و خطر سفر کرتے تھے جس کی وجہ سے تجارت کو بے حد فروغ ملا اور لوگ معاشی اعتبار سے بہت مضبوط ہو گئے اور جب سے اس سزا پر عمل نہیں ہو رہا تب سے تجارتی سر گرمیاں سب کے سامنے ہیں ، جس ملک میں تجارتی ساز و سامان کی نَقل و حَمل کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہیں وہاں کی بَرآمدات اور دَرآمدات انتہائی کم ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اب تو حالات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ بینک سے کوئی پیسے لے کر نکلا تو راستے میں لٹ جاتا ہے، کوئی پیدل جا رہا ہے تو اس کی نقدی اور موبائل چھن جاتا ہے، کوئی بس کا مسافر ہے تو وہاں بھی محفوظ نہیں ،کوئی اپنی سواری پر ہے تو وہ خود کو زیادہ خطرے میں محسوس کرتا ہے، سرکاری اور غیر سرکاری اَملاک ڈاکوؤں کی دست بُرد سے محفوظ نہیں۔ اگر ڈاکہ زنی کی بیان کردہ سزا پر صحیح طریقے سے عمل ہو تو ان سب کا دماغ چند دنوں میں ٹھکانے پر آ جائے گا اور ہر انسان پر امن ماحول میں زندگی بسر کرنا شروع کر دے گا۔