Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 35 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(35)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ: اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔} آیت میں وسیلہ کا معنی یہ ہے کہ ’’جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات چاہے فرض ہوں یا نفل، ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو ۔اور اگر تقویٰ سے مراد فرائض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا مراد لیا جائے اور وسیلہ تلاش کرنے سے مُطْلَقاً ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے تو بھی درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے محبت، صدقات کی ادائیگی، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زیارت، دعا کی کثرت، رشتہ داروں سے صِلہ رَحمی کرنا اور بکثرت ذِکْرُ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہنا وغیرہ بھی اسی عموم میں شامل ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے قریب کر دے اسے لازم پکڑ لو اور جو بارگاہِ الٰہی سے دور کرے اسے چھوڑ دو۔ (صاوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۴۹۷)
یاد رکھئے! رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نیک بندوں کو وسیلہ بنانا، ان کے وسیلے سے دعائیں کرنا، ان کے تَوَسُّل سے بارگاہِ ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ میں اپنی جائز حاجات کی تکمیل کے لئے اِلتجائیں کرنا نہ صرف جائز بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ رہا ہے۔ چنانچہ اس سے متعلق یہاں 3 روایات ملاحظہ ہوں :
(1)… صحیح بخاری میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عباس بن عبدُالمطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے وسیلے سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتاتھا اور ا ب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا جان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوو سیلہ بناتے ہیں کہ ہم پر بارش برسا۔ تو لوگ سیراب کیے جاتے تھے۔ (بخاری، کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، ۱ / ۳۴۶، الحدیث: ۱۰۱۰)
(2)…حضرت اوس بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مدینۂ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے ا س کی شکایت کی ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا: رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور کی طرف غور کرو ،اس کے اوپر (چھت میں ) ایک طاق آسمان کی طرف بنادو حتّٰی کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ رہے ۔ لوگوں نے ایسا کیا تو ہم پر اتنی بارش برسی کہ چارہ اُگ گیا اور اونٹ موٹے ہوگئے حتّٰی کہ چربی سے گویا پھٹ پڑے، تو اس سال کا نام عَامُ الْفَتْق یعنی پھٹن کا سال رکھا گیا۔(سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ۔۔۔ الخ، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۹۲)
(3)…بلکہ خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی تعلیم ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دی، چنانچہ حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے توان کو یہ دعا ارشاد فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں ، اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، میرے لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرما۔(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲ / ۱۵۶، الحدیث: ۱۳۸۵)
نوٹ: جو شخص اس حدیثِ پاک میں مذکور دعا پڑھنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس دعا میں ان الفاظ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کی جگہ ’’یَا نَبِیَّ اللہ ‘‘یا ’’ یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ پڑھے۔ اس بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر 4 کی تفسیر میں مذکور کلام ملاحظہ فرمائیں۔