Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 42 ≫ Translation ≫ Tafsir
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِؕ-فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْۚ-وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(42)
تفسیر: صراط الجنان
{سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ:بہت جھوٹ سننے والے۔}سابقہ آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی عوام تھی جو پادریوں اور سرداروں کے جھوٹ سن کر اس پر عمل کرتے تھے اور اِس آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی حکمران اور پادری ہیں جو رشوتیں لے کر حرام کو حلال کرتے اور شریعت کے احکام کو بدل دیتے تھے۔
رشوت کا شرعی حکم اور ا س کی وعیدیں :
رشوت کا لینا دینا دونوں حرام ہیں اور لینے دینے والے دونوں جہنمی ہیں ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقًا حرام ہے ،جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے (وہ) رشوت ہے یونہی جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم (یعنی ظلم دور کرنے) کے لئے جو کچھ دیاجائے (وہ) دینے والے کے حق میں رشوت نہیں ،یہ دے سکتا ہے، لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔(فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۹۷)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقاً گناہِ کبیرہ ہے ،لینے والا حرام خوار ہے، مستحقِ سخت عذابِ نار ہے، دینا اگر بمجبوری اپنے اوپر سے دفعِ ظلم کو ہو تو حرج نہیں اور اپنا آتا وصول کرنے کو ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح ظلم کرنے کے لئے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اَشَد غضب و اِنتقام ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۸ / ۴۶۹)
اَحادیث میں رشوت لینے ،دینے والے کے لئے شدید وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابوحمید ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کو بنی سُلَیم سے زکوٰۃ وصول کرنے پر عامل مقرر کیا جسے اِبْنِ لُتْبِیَہ کہا جاتا تھا۔ جب اس نے آ کر حساب دیا تو کہا : یہ آپ کا مال ہے اور یہ میرا تحفہ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اچھا! تم اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھے رہتے اور دیکھتے کہ تمہارے لئے (وہاں سے) کتنے تحفے آتے ہیں اور تم اپنے بیان میں کتنے سچے ہو۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے خطاب کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا ’’جب میں تم میں سے کسی کو کسی جگہ کا عامل بناتا ہوں جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے تو وہ میرے پاس ا ٓکر کہتا ہے :یہ آپ کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے تحفۃً دیا گیا ہے۔ یہ کیوں نہ کیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہتا یہاں تک کہ ا س کے پاس تحفے آتے۔ خدا کی قسم! تم میں سے جو کوئی بغیر حق کے کسی چیز کو لے گا وہ اسے اٹھا ئے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔ میں اچھی طرح پہچانتا ہوں کہ جب تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا تو ا س نے اونٹ اٹھایا ہو ا ہو گا جو بلبلاتا ہو گا یا گائے جو ڈگراتی ہو گی یا بکری جو ممیاتی ہو گی۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دستِ مبارک بلند فرمایا یہاں تک کہ بغل کی سفیدی نظر آنے لگی اور کہنے لگے :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، کیا میں نے (تیرا حکم) پہنچا دیا ؟ (بخاری، کتاب الحیل، باب احتیال العامل لیہدی لہ، ۴ / ۳۹۸، الحدیث: ۶۹۷۹)
(2)… حضرت عبداللہ بن عمر و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۵۵۰، الحدیث: ۲۰۲۶)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو گوشت سُحت سے پلا بڑھا تو آگ اس کی زیادہ حق دار ہے۔ عرض کی گئی :سُحت سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا: فیصلہ کرنے میں رشوت لینا۔ (جمع الجوامع، قسم الاقوال، حرف الکاف، ۵ / ۳۹۱، الحدیث: ۱۵۹۰۴)
رشوت سے حاصل کئے ہوئے مال کا شرعی حکم:
جس نے کوئی مال رشوت سے حاصل کیا ہو تو اس پر فرض ہے کہ جس جس سے وہ مال لیا انہیں واپس کر دے، اگر وہ لوگ زندہ نہ رہے ہوں توان کے وارثوں کو وہ مال دیدے، اگر دینے والوں کا یا ان کے وارثوں کا پتا نہ چلے تو وہ مال فقیروں پر صدقہ کر دے ۔ خرید و فروخت وغیرہ میں ا س مال کو لگانا حرامِ قطعی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ مالِ رشوت کے وبال سے سبکدوش ہونے کانہیں ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۵۱، ملخصاً)
یہاں چونکہ رشوت پر کچھ تفصیلی کلام کیا ہے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے کچھ مزید فقہی وضاحت کردی جائے چونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ رشوت شاید وہی ہے جو سرکاری محکموں میں دی جاتی ہے یا جو غلط کام کروانے کیلئے دی جاتی ہے یا جو رشوت کا نام لے کر دی جائے حالانکہ مذکورہ بالا صورتیں اور ان کے علاوہ بھی بہت سی صورتیں رشوت میں ہی داخل ہیں خواہ رشوت کا نام لیا جائے یا نہیں۔ ایک آدھ صورت مُسْتَثنیٰ ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ رشوت کے بارے میں اسی طرح کی غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے یہاں فتاویٰ رضویہ سے ایک اہم فتویٰ نقل کیا جاتا ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو شخص بذاتِ خود خواہ از جانب حاکم کسی طرح کا قَہر وتَسلُّط (دوسروں پر اختیار) رکھتا ہو جس کے سبب لوگوں پر اس کا کچھ بھی دباؤ ہواگرچہ وہ فی نَفسہ ان پر جَبر وتعدی نہ کرے دباؤ نہ ڈالے اگرچہ وہ کسی فیصلہ قطعی بلکہ غیر قطعی کا بھی مجاز نہ ہو جیسے کو توال، تھانہ دار، جمعدار یا دہقانیوں کے لئے زمیندار مقدم پٹواری یہاں تک کہ پنچایتی قوموں یا پیشوں کے لئے ان کا چودھری، ان سب کو کسی قسم کے تحفہ لینے یا دعوتِ خاصہ (یعنی وہ دعوت کہ خاص اسی کی غرض سے کی گئی ہو کہ اگر یہ شریک نہ ہو تو دعوت ہی نہ ہو) قبول کرنے کی اصلاً اجازت نہیں مگر تین صورتوں میں ، اول اپنے افسر سے جس پر اس کا دباؤ نہیں ، نہ وہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی طرف سے یہ ہدیہ ودعوت اپنے معاملات میں رعایت کرانے کے لئے ہے۔ دوم ایسے شخص سے جو اس کے اس منصب سے پہلے بھی اسے ہدیہ دیتا یا دعوت کرتا تھا بشرطیکہ اب سے اسی مقدار پر ہے ورنہ زیادت روا (جائز) نہ ہوگی مثلاً پہلے ہدیہ ودعوت میں جس قیمت کی چیز ہوتی تھی اب اس سے گراں قیمت (زیادہ قیمتی)، پر تکلف ہوتی ہے یا تعداد میں بڑھ گئی یا جلد جلد ہونے لگی کہ ان سب صورتوں میں زیادت موجود اور جواز مفقود، مگر جبکہ اس شخص کا مال پہلے سے اس زیادت کے مناسب زائد ہوگیا ہو جس سے سمجھا جائے کہ یہ زیادت اس شخص کے منصب کے سبب نہیں بلکہ اپنی ثروت بڑھنے کے باعث ہے۔ سوم اپنے قریب محارم سے،جیسے ماں باپ اولاد بہن بھائی نہ چچا ماموں خالہ پھوپھی کے بیٹے کہ یہ محارم نہیں اگرچہ عرفاً انہیں بھی بھائی کہیں۔ محارم سے مطلقاً اجازت ظاہر عبارت قدوری پر ہے ورنہ امام سغناقی نے نہایہ پھر امام محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اسے بھی صورت دوم ہی میں داخل فرمایا کہ محارم سے بھی ہدیہ ودعوت کا قبول اسی شرط سے مشروط کہ پیش از حصولِ منصب بھی وہ ا س کے ساتھ یہ برتاؤ برتتے ہوں مگر یہ کہ اسے یہ منصب ملنے سے پہلے وہ فقراتھے اب صاحبِ مال ہوگئے کہ اس تقدیر پر پیش ازمنصب عدمِ ہدیہ ودعوت بربنائے فقر سمجھا جائے گا اور فی الواقع اظہر من حیث الدلیل یہی نظر آتا ہے کہ جب باوصف قدرت پیش از منصب عدم یا قلت وبعد منصب شروع باکثرت بربنائے منصب ہی سمجھی جائے گی اس تقدیر پر صرف دو ہی صورتیں مستثنیٰ رہیں پھر بہرحال جو صورت مستثنیٰ ہوگی وہ اسی حال میں حکم جوا ز پاسکتی ہے جب اس وقت اس شخص کا کوئی کام اس سے متعلق نہیں ورنہ خاص کام پڑنے غرض متعلق ہونے کے وقت اصلاً اجازت نہیں خواہ وہ افسر ہو یا بھائی یا پہلے سے ہدیہ وغیرہا دینے والا بلکہ ایسے وقت عام دعوت میں شریک ہونا بھی نہ چاہئے نہ کہ خاص، پھر جہاں جہاں ممانعت ہے اس کی بنا صرف تہمت و اندیشہ رعایت پر ہے حقیقۃً وجود رعایت ضرور نہیں کہ اس کاا پنے عمل میں کچھ تغیر نہ کرنا یا اس کا اس کی عادت بے لوثی سے آگاہ ہونا مفید جواز ہوسکے۔ دنیا کے کام امید ہی پر چلتے ہیں ، جب یہ دعوت و ہدایا قبول کیا کرے گا تو ضرور خیال جائے گا کہ شاید اب کی بار کچھ اثر پڑے کہ مفت مال دینے کی تاثیر مجرب ومشاہد ہے اس بار نہ ہوئی اس بار ہوگی، اس بار نہ ہوئی پھر کبھی ہوگی، اور یہ حیلہ کہ اس کا ہدیہ و دعوت بربنائے اخلاق انسانیت ہے نہ بلحاظ منصب، اس کا رد خود حضورِ اقدس سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرما چکے ہیں ، جب ایک صاحب کو تحصیل زکوٰۃ پر مقرر فرما کر بھیجا تھا انہوں نے اموالِ زکوٰۃ حاضر کئے اور کچھ مال جدا رکھے کہ یہ مجھے ملے ہیں فرمایا اپنی ماں کے گھر بیٹھ کر دیکھا ہوتا کہ اب کتنے تحفے ملتے ہیں یعنی یہ ہدایا صرف اسی منصب کی بنا پر ہیں اگر گھر بیٹھا ہوتا تو کون آکر دے جاتا، اس مسئلہ کی تفاصیل میں اگرچہ کلام بہت طویل ہے مگر یہاں جو کچھ مذکور ہوابعونہ تعالیٰ خلاصہ تنقیح وصالح تحویل ہے۔(فتاوی رضویہ، ۱۸ / ۱۷۰-۱۷۱)
{فَاِنْ جَآءُوْكَ: تو اگر وہ تمہارے پاس آئیں۔} یہاں سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواختیار دیا گیا کہ اہلِ کتاب آپ کے پاس کوئی مقدمہ لائیں تو آپ کو اختیار ہے فیصلہ فرمائیں یا نہ فرمائیں۔