banner image

Home ur Surah Al Maidah ayat 52 Translation Tafsir

اَلْمَـآئِدَة

Al Maidah

HR Background

فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْهِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِیْبَنَا دَآىٕرَةٌؕ-فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِیْنَﭤ(52)

ترجمہ: کنزالایمان اب تم انہیں دیکھو گے جن کے دلوں میں آزار ہے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑتے ہیں کہتے ہیں ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر کوئی گردش آجائے تو نزدیک ہے کہ اللہ فتح لائے یا اپنی طرف سے کوئی حکم پھر اس پر جو اپنے دلوں میں چھپایا تھا پچتاتے رہ جائیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان : تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑے جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر گردش آنے کا ڈر ہے تو قریب ہے کہ اللہ فتح یا اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے پھر یہ لوگ اس پر پچھتائیں گے جو اپنے دلوں میں چھپاتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَرَى الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ: تو جن کے دلوں میں مرض ہے تم انہیں دیکھو گے۔} مسلمانوں کو تو فرمادیا گیا کہ یہودونصاریٰ سے دوستی نہ کرو لیکن منافقین کے بارے میں فرما دیا کہ ان کی یہودونصاریٰ سے دوستیاں بڑی مستحکم ہیں کیونکہ یہ دل کے مریض ہیں اور تم انہیں دیکھو گے کہ یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے میں دوڑے جاتے ہیں اور ان لوگوں کی نظر میں اُن سے دوستی کرنے کا فائدہ یہ ہے اور اپنی زبان سے بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر کبھی حالات بدل جائیں ، مسلمان مغلوب اور کافر غالب ہوجائیں تو کفار سے دوستی لگانا انہیں اس وقت فائدہ دے گا۔ لیکن یہ سب منافقت کی وجہ سے تھا کیونکہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسلام کے غلبے کی جو باتیں فرماتے تھے انہیں اس پر یقین نہیں تھا ورنہ اگر ان باتوں پر یقین ہوتا تو ڈٹ کر اسلام کی حمایت کرتے۔ اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے کہ قریب ہے کہ وہ مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے اور اپنے رسول، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کامیاب و کامران فرمائے اور اُن کے دین کو تمام دینوں پر غالب کردے اور مسلمانوں کو اُن کے دشمن یہود و نصاریٰ و غیرہ کفار پر غلبہ دیدے چنانچہ یہ خبر سچ ثابت ہوئی اور اللہ  تعالیٰ کے کرم سے مکہ مکرمہ اور یہودیوں کے علاقے فتح ہوئے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱ / ۵۰۳)

اس آیت میں پہلی بات تو یہ ارشاد فرمائی تھی کہ اللہ  تعالیٰ فتح لے آئے اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی خاص حکم لے آئے جیسے سرزمینِ حجاز کو یہود یوں سے پاک کرنا اور وہاں اُن کا نام و نشان باقی نہ رکھنا یا منافقین کے راز کھول کر انہیں رسوا کرنا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۱ / ۵۰۳-۵۰۴،  جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۱۰۲، ملتقطاً)

تو جب اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا اس وقت منافقین اپنی منافقت پر یا اس خیال پر نادم ہوجائیں گے کہ سرورِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کفار کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوں گے۔