banner image

Home ur Surah Al Maidah ayat 54 Translation Tafsir

اَلْمَـآئِدَة

Al Maidah

HR Background

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(54)

ترجمہ: کنزالایمان اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں ، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔ یہ (اچھی سیرت) اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اوراللہ وسعت والا، علم والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ:تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا۔} کفار کے ساتھ دوستی یاری اورمحبت و قلبی تعلق چونکہ بعض اوقات بے دینی اور اِرتِداد کا سبب بن جاتا ہے ، اس لئے کفار سے دوستی کی ممانعت کے بعد مُرتَدّین کا ذکر فرمایا اور مرتد ہونے سے پہلے لوگوں کے مرتد ہونے کی خبر دی چنانچہ یہ خبرسچ ثابت ہوئی اور بہت سے لوگ مرتد ہوئے۔

{فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ: تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! تم میں سے اگر کچھ لوگ مرتد بھی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ صفت بندے پھر بھی موجود ہوں گے اوروہ عظیم صفات کے حامل ہوں گے۔ اس آیت میں ان کی چند صفات بیان فرمائی گئیں :

(1)…وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔

(2)…وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرتے ہیں۔

(3)…مسلمانوں کے ساتھ نرمی و شفقت کا سلوک کرنے والے ہیں۔

(4)…کافروں سے سختی سے پیش آنے والے ہیں۔

(5)…راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔

(6)…حق بیان کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ حق گو اور حق گوئی میں بیباک ہیں۔

             یہ صفات جن حضرات کی ہیں وہ کون ہیں ، اس میں کئی اقوال ہیں۔

(1)…حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم، امام حسن بصری اور حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کہا کہ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  اور ان کے وہ ساتھی ہیں جنہوں نے نبی کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے بعد مرتد ہونے والوں اور زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔

(2)… حضرت عیاض بن غنم اشعری   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سرکارِ دو عالم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  نے حضرت ابو موسیٰ اَشْعری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نسبت فرمایا کہ یہ اُن کی قوم ہے۔

(3)… ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگ اہلِ یمن ہیں جن کی تعریف بخاری و مسلم کی حدیثوں میں آئی ہے۔

(4)… مفسر سدی کا قول ہے کہ یہ لوگ انصار ہیں جنہوں نے تاجدارِ رسالت   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خدمت کی۔ ان تمام اقوال میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ بیان کردہ سب حضرات کا ان صفات کے ساتھ متصف ہونا صحیح ہے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۱ / ۵۰۴-۵۰۵)

کامل مسلمان کا نمونہ:

            اس آیت میں مسلمانوں کے سامنے ایک کامل مسلمان کا نمونہ بھی پیش کردیا گیا کہ کامل مسلمان کیسا ہوتا ہے؟ ہمیں بھی اوپر بیان کردہ صفات کی روشنی میں اپنے اوپر غور کرلینا چاہیے۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کے حوالے سے یہ واقعہ ایک عظیم مثال ہے:

            حضرت شیخ ابو عبداللہ خیاط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس ایک آتَش پرست کپڑے سلواتا اور ہر بار اجرت میں ایک کھوٹا سکہ دے جاتا، آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کو لے لیتے۔ ایک بار آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی غیر موجودگی میں شاگرد نے آتَش پرست سے کھوٹا سکہ نہ لیا۔ جب حضرت شیخ ابو عبداللہ خیاط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ واپس تشریف لائے اور ان کو یہ معلوم ہوا تو شاگرد سے فرمایا: تو نے کھوٹا درہم کیوں نہیں لیا؟ کئی سال سے وہ مجھے کھوٹا سکہ ہی دیتا رہا ہے اور میں بھی چپ چاپ لے لیتا ہوں تاکہ یہ کسی دوسرے مسلمان کو نہ دے آئے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس وتہذیب الاخلاق۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۷-۸۸)

            یہ مسلمانوں پر نرمی ہے۔ اور حدیثِ مبارک ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہوں اور  اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی حق الجوار، ۳ / ۳۷۹، الحدیث: ۱۹۵۱)

            اور حق گوئی میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے کے متعلق یہ حکایت ملاحظہ فرمائیں : قاضی ابو حَازِم   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ انصاف کے معاملہ میں بہت سخت تھے۔ آپ ہمیشہ حق بات کہتے اوردرست فیصلے فرماتے۔ ایک مرتبہ خلیفۂ وقت ’’مُعْتَضِد باللہ‘‘ نے آپ  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  کی طرف پیغام بھیجا: فلاں تاجر نے ہم سے مال خریدا ہے اور نقد رقم ادا نہیں کی ۔وہ میرے علاوہ دوسروں کا بھی مقروض ہے، مجھے خبر پہنچی ہے کہ دوسرے قرضخواہوں نے آپ کے پاس گواہ پیش کئے تو آپ نے اس تاجر کا مال ان میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مجھے اس مال سے کچھ بھی نہیں ملا حالانکہ جس طر ح وہ دوسروں کا مقروض تھا اسی طرح میرا بھی تھا، لہٰذامیرا حصہ بھی دیا جائے ۔پیغام پاکر قاضی ابو حَازِم   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے قاصد سے کہا: خلیفہ سے کہنا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز فرمائے، وہ وقت یاد کرو جب آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے فیصلوں کی ذمہ داری کا بوجھ اپنی گردن سے اُتار کر تمہارے گلے میں ڈال دیا ہے ۔ اے خلیفہ! اب میں فیصلہ کرنے کا مختار ہوں اور میرے لئے جائز نہیں کہ گواہوں کے بغیر کسی مُدَّعی کے حق میں فیصلہ کروں۔ قاصد نے قاضی صاحب کاپیغام سنایا توخلیفہ نے کہا: جاؤ ! قاضی صاحب سے کہوکہ میرے پاس بہت معتبر اور معزز گواہ موجود ہیں۔ جب قاضی صاحب کو یہ پیغام ملا تو فرمایا: گواہ میرے سامنے آکر گواہی دیں ،میں ان سے پوچھ گچھ کروں گا، شہادت کے تقاضوں پر پورے اُتر ے تو ان کی گواہی قبول کرلوں گا ورنہ وہی فیصلہ قابلِ عمل رہے گا جو میں کر چکا ہوں۔ جب گواہوں کو قاضی صاحب کا یہ پیغام پہنچا تو انہوں نےآپ   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  سے خوف کھاتے ہوئے عدالت آنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا قاضی صاحب نے خلیفہ مُعْتَضِد باللہ  کا دعویٰ رد کرتے ہوئے اسے کچھ بھی نہ بھجوایا۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ والثمانون بعد المائتین، ص۲۶۱-۲۶۲)