banner image

Home ur Surah Al Maidah ayat 82 Translation Tafsir

اَلْمَـآئِدَة

Al Maidah

HR Background

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚ-وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰىؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(82)

ترجمہ: کنزالایمان ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ غرور نہیں کرتے۔ ترجمہ: کنزالعرفان ضرور تم مسلمانوں کا سب سے زیادہ شدید دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جو کہتے تھے :ہم نصاریٰ ہیں ۔ یہ اس لئے ہے کہ ان میں علماء اور عبادت گزار موجود ہیں اور یہ تکبر نہیں کرتے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

}وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا :اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے۔{ اس آیتِ کریمہ میں اُن عیسائیوں کی تعریف بیان کی گئی ہے جوحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے زمانۂ اقدس تک حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین پر قائم رہے اور تاجدارِ رسالت    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعثت معلوم ہونے کے بعد سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئے۔ شانِ نزولابتدائے اسلام میں جب کفارِ قریش نے مسلمانوں کو بہت ایذائیں دیں تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے گیارہ مرد اور چار عورتوں نے سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم سے حبشہ کی طرف ہجرت کی، یہ تمام حضرات اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں بَحری سفر کرکے حبشہ پہنچے۔ اس ہجرت کو ہجرتِ اُولیٰ کہتے ہیں۔ اُن کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ گئے پھر اور مسلمان روانہ ہوتے رہے یہاں تک کہ بچوں اور عورتوں کے علاوہ مہاجرین کی تعداد بیاسی (82) مَردوں تک پہنچ گئی، جب قریش کو اس ہجرت کا علم ہوا تو انہوں نے چند افراد کوتحفہ تحائف دے کر نجاشی بادشاہ کے پاس بھیجا، ان لوگوں نے دربارِ شاہی میں باریابی حاصل کرکے بادشاہ سے کہا : ہمارے ملک میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگوں کو نادان بنا ڈالا ہے اُن کی جماعت جو آپ کے ملک میں آئی ہے وہ یہاں فساد انگیزی کرے گی اور آپ کی رعایا کو باغی بنائے گی، ہم آپ کو خبردینے کے لئے آئے ہیں اور ہماری قوم درخواست کرتی ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کیجئے، نجاشی بادشاہ نے کہا :پہلے ہم ان لوگوں سے گفتگو کرلیں باقی بات بعد میں دیکھیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے مسلمانوں کو طلب کیا اور ان سے دریافت کیا کہ’’ تم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ  تعالیٰ   کے بندے اور اس کے رسول، کَلِمَۃُ اللہ اور روحُ اللہ ہیں اور حضرت مریم  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا  کنواری پاک ہیں۔ یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھا کر کہا خدا عَزَّوَجَلَّ   کی قسم تمہارے آقا نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام    کے کلام میں اتنا بھی نہیں بڑھایا جتنی یہ لکڑی، (یعنی حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا ارشاد کلامِ عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   کے بالکل مطابق ہے)یہ دیکھ کر مشرکینِ مکہ کے چہرے اتر گئے۔ پھر نجاشی نے قرآن شریف سننے کی خواہش کی تو حضرت جعفر   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے سورۂ مریم تلاوت کی، اس وقت دربار میں نصرانی عالم اور درویش موجود تھے، قرآنِ پاک سن کر بے اختیار رونے لگے ۔ پھر نجاشی نے مسلمانوں سے کہا: تمہارے لئے میری سلطنت میں کوئی خطرہ نہیں مشرکینِ مکہ اپنے مقصد میں ناکام ہو کر واپس پلٹے اور مسلمان نجاشی کے پاس بہت عزت و آسائش کے ساتھ رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نجاشی کو دولتِ ایمان کا شرف حاصل ہوا ۔اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۲،۱ / ۵۱۸)