Home ≫ ur ≫ Surah Al Maun ≫ ayat 4 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ(4)الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ(5)الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَ(6)
تفسیر: صراط الجنان
{فَوَیْلٌ
لِّلْمُصَلِّیْنَ:
تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔} یہ آیت اور ا س کے بعد والی آیت
میں ارشاد فرمایا کہ ان نمازیوں کیلئے خرابی ہے جو اپنی نماز سے
غافل ہیں ۔اس سے مراد منافقین ہیں کہ جب وہ لوگ تنہا ہوتے ہیں تو نماز نہیں پڑھتے
کیونکہ وہ اس کے فرض ہونے کا اعتقادنہیں رکھتے اور جب وہ لوگوں کے سامنے ہوتے ہیں تو
نمازی بنتے، اپنے آپ کو نمازی ظاہر کرتے اور انہیں دکھانے کے لئے اُٹھ بیٹھ لیتے
ہیں اور حقیقت میں یہ لوگ نماز سے غافل ہیں ۔( مدارک، الماعون، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۱۳۷۷)
نماز سے غفلت برتنے
والوں کا انجام:
نماز سے غافل رہنے والوں کے
بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے: ’’فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ
اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا‘‘(مریم:۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ان کے بعد وہ
نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی
پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ
قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا
قَلِیْلًا٘ۙ(۱۴۲) مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ
ذٰلِكَ ﳓ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ
اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا‘‘(النساء:۱۴۲،۱۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک منافق لوگ
اپنے گمان میں اللّٰہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور
وہی انہیں غافل کرکے مارے گااور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست
ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللّٰہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں۔ درمیان میں ڈگمگا رہے ہیں
، نہ اِن کی طرف ہیں نہ اُن کی طرف اور جسے اللّٰہ گمراہ کرے تو تم اس کے لئے کوئی راستہ نہ پاؤ گے۔
یاد
رہے کہ نماز سے غفلت کرنے یعنی کبھی نماز پڑھ لینے اور کبھی چھوڑ
دینے سے بھی بچنا ضروری ہے اور یہ خاص منافقوں کا وصف ہے اور نماز
میں غفلت کرنا یعنی نمازکے دوران دیگر کاموں کے بارے میں سوچ
بچار کرنے لگ جانا یا شیطان کے وسوسوں کو قبول کر لیناوغیرہ اس سے بھی بچنے کی
کوشش کرنی چاہیے اگرچہ اس کی شناعت یعنی برائی کم ہے۔
{اَلَّذِیْنَ هُمْ عَنْ
صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ: جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔} نماز سے غفلت کی چند صورتیں ہیں ، جیسے
پابندی سے نہ پڑھنا، صحیح وقت پر نہ پڑھنا، فرائض و واجبات کو صحیح طریقے سے ادا
نہ کرنا، شرعی عذر کے بغیر با جماعت نہ پڑھنا، نماز کی پرواہ نہ کرنا، تنہائی میں قضا
کر دینا اور لوگوں کے سامنے پڑھ لینا وغیرہ، یہ سب صورتیں وعید میں داخل ہیں جبکہ
شوق سے نہ پڑھنا، سمجھ بوجھ کر ادا نہ کرنا، توجہ سے نہ پڑھنا بھی نماز سے غفلت
میں داخل ہے البتہ یہ صورتیں اس وعید میں داخل نہیں جو ماقبل آیت میں بیان ہوئی
ہے ۔
{اَلَّذِیْنَ هُمْ
یُرَآءُوْنَ:وہ جو دکھاوا کرتے ہیں
۔} یعنی منافقین فرائض کی
ادائیگی اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل
کرنے کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں ۔( مدارک، الماعون، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۳۷۷)
ریاکاری کی تعریف اور اس
کی مذمت:
ریا کاری کی تعریف یہ ہے
کہ اپنے عمل کو اس ارادے سے ظاہر کرنا کہ لوگ اسے دیکھ کراس کی عبادت گزاری کی
تعریف کریں۔( قرطبی، الماعون، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۱۵۴، الجزء العشرون)
کثیر اَحادیث میں ریا
کاری کی مذمت بیان کی گئی ہے،یہاں ان میں سے دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں :ہم لوگ مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ تشریف لائے اورارشاد
فرمایا’’ میں تمہیں ایسی چیز کی خبر نہ دوں جس کا مسیح دجا ل سے بھی
زیادہ میرے نزدیک تم پر خوف ہے؟ہم نے عرض کی:ہاں ، یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ارشاد فرمایا’’وہ شرکِ خفی ہے،آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو ا
س وجہ سے طویل کرتا ہے کہ دوسرا شخص اسے نماز پڑھتا دیکھ رہا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الریاء والسمعۃ، ۴ / ۴۷۰، الحدیث: ۴۲۰۴)
(2)…حضرت ابوسعید بن ابو
فضالہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جب اللّٰہ تعالیٰ تمام اَوّلین و
آخرین کو اس دن میں جمع فرمائے گا جس میں شک نہیں ، تو ایک
مُنادی ندا کرے گا، جس نے کوئی کام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے کیا اور اس میں کسی
کو شریک کرلیا وہ اپنے عمل کا ثواب اسی شریک سے طلب کرے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ شرک سے بالکل بے نیاز ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الکہف، ۵ / ۱۰۵، الحدیث: ۳۱۶۵)
یاد
رہے کہ اپنی نیت کو درست رکھتے ہوئے فرض عبادات کی بجا آوری اِعلانیہ کرنی چاہئے
تاکہ لوگ فرض عبادات چھوڑنے کی ا س پر تہمت نہ لگائیں اور نفلی عبادات پوشیدہ کرنی
چاہئیں کیونکہ ان میں تہمت لگنے کا اندیشہ نہیں۔