Home ≫ ur ≫ Surah Al Mulk ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ: وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ۔} یہاں سے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے بعض آثار بیان کئے جا رہے
ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ۔ موت (انسانوں اور حیوانوں میں ) روح کے جسم سے جدا ہو جانے اورحواس کی طاقت زائل
ہوجانے کا نام ہے جبکہ زندگی جسم میں روح کے وجود کے ساتھ حواس کی طاقت
باقی رہنے کا نام ہے اور پیدا کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو وجود بخشنا ،اس سے
معلوم ہوا کہ موت وجود ی چیز ہے کیونکہ محض عَدمی چیز پیدا نہیں ہو
سکتی ۔( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۸۹، تفسیر کبیر، الملک، تحت
الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۵۷۹، ملتقطاً)
{لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا: تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون
زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے۔} یہاں زندگی
اور موت پیدا کرنے کی حکمت بیان کی جا رہی ہے کہ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری موت اور زندگی کو اس
لئے پیدا کیا تاکہ دنیا کی زندگی میں وہ اپنے اَحکامات اور
مَمنوعات کے ذریعے تمہاری آزمائش کرے کہ کون زیادہ فرمانبردار ، مخلص اور شریعت
کے بیان کردہ طریقے کے مطابق عمل کرنے والا ہے اور کوئی اپنے برے اعمال کے
ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کو
عاجز نہیں کر سکتا کیونکہ وہ غالب ہے اور
گناہگاروں میں سے جو توبہ کرے اسے وہ بخشنے والا ہے۔( مدارک ، الملک ، تحت الآیۃ : ۲ ، ص۱۲۶۱، روح البیان،
الملک، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۷۶، ابو سعود، الملک، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۷۴۳، ملتقطاً)
بندے کا ہر عمل اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور شرعی طریقے کے مطابق ہونا چاہئے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ بندے کا ہر عمل خالص اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور شریعت
کے بیان کردہ طریقے کے مطابق ہونا چاہئے، لہٰذا جس کا عمل
خالص اللّٰہ تعالیٰ کی
رضاحاصل کرنے کے لئے ہو لیکن شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق نہ ہو تو وہ عمل
مقبول نہیں ، اسی طرح جس کا عمل شریعت کے بیان کردہ طریقے کے مطابق تو ہو
لیکن وہ خالص اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہ ہو بلکہ ریا کاری اور نفاق
کے طور پر ہو تو وہ عمل بھی مقبول نہیں ۔ ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ
یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ
بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا‘‘(کہف:۱۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو
جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور
اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔
حضرت
فضیل بن عیاض رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جب عمل خالص ہو لیکن درست نہ ہوتو اسے
قبول نہیں کیا جائے گا اور جب عمل درست تو ہو لیکن خالص نہ ہو
تویہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا،عمل صرف وہی مقبول ہے جو خالص اور
درست ہو اور عمل خالص اس وقت ہو گا جب اسے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اور
درست اس وقت ہو گا جب وہ سنت(یعنی شریعت کے
بتائے ہوئے طریقے ) کے مطابق ہو گا۔( جامع العلوم والحکم، الحدیث الاول، ص۲۴)
اس
سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو شریعت کے بیان کردہ طریقے کے
مطابق عمل نہیں کرتے اور اگر انہیں کوئی سمجھائے تو اپنا
عمل درست کرنے کی بجائے یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ قبول کرے گا۔
ہمیں زندگی عطاکئے جانے اور ہم پر موت مُسَلَّط کئے جانے کی
حکمت:
اس
آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمیں زندگی عطاکئے جانے اور ہم پر موت
مسلّط کئے جانے کی حکمت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے معاملے میں ہماری جانچ ہو
جائے کہ ہم میں سے کون اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور کیسی اطاعت کرتا
ہے تاکہ آخرت میں جب ا طاعت گزاروں کو انعامات ملیں اور
نافرمانوں کو سزائیں ملیں تو کوئی یہ اعتراض نہ
کر سکے کہ اطاعت گزاروں کو انعامات اور نافرمانوں کو سزا
کیوں ملی۔یاد رکھیں کہ دنیا کی زندگی ایک دن ضرور ختم ہو
جائے گی جبکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، جیساکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا
لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ-وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ
كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ‘‘(عنکبوت:۶۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل کودہے اور بیشک
آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے۔کیا ہی اچھا تھا اگر وہ (یہ) جانتے ۔
اور
ارشاد فرمایا: ’’وَ مَاۤ
اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَاۚ-وَ
مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘‘(قصص:۶۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور(اے لوگو!) جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے تو
وہ دنیوی زندگی کا سازو سامان اور اس کی زینت ہے اور جو(ثواب) اللّٰہ کے پاس ہے وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والا ہے تو کیا تم سمجھتے
نہیں ؟
اور
دنیا کی رنگینیوں اور رونقوں سے بھی ہمیں آزمایا جا رہاہے
کہ ہم کیسے عمل کرتے ہیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ
اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘(کہف:۷ )
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کوزمین
کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان
میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔
اسی
طرح ہمیں پیدا کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو نعمتیں پیدا کی ہیں ،ان کے
ذریعے بھی ہمارے اعمال کی آزمائش ہو رہی ہے،جیساکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ
فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ
اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘(ہود:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو
چھ دن میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا(تمہیں پیدا کیا )تا کہ
تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔
اور
وہ لوگ جو دنیا کی زندگی میں ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ(۳۰) اُولٰٓىٕكَ
لَهُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا
مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ یَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ
اِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِـٕیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآىٕكِؕ-نِعْمَ الثَّوَابُؕ-وَ
حَسُنَتْ مُرْتَفَقًا‘‘(کہف:۳۰،۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہم ان کا
اجر ضائع نہیں کرتے جو اچھے عمل کرنے والے ہوں ۔ ان کے لیے ہمیشگی کے
باغات ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،
انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن پہنائے
جائیں گے اور وہ سبز رنگ کے باریک اور موٹے ریشم کے کپڑے
پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے
ہوں گے۔ یہ کیا ہی اچھا ثواب ہے اور جنت کی کیا ہی اچھی آرام کی جگہ
ہے۔
اور
جنہوں نے کفر کیا اور گناہوں میں مصروف رہے ان
کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ
تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ-مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ-كَاَنَّمَاۤ
اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ
النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(یونس:۲۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جنہوں نے
برائیاں کمائیں تو برائی کا بدلہ اسی کے برابر ہے اور
ان پر ذلت چھائی ہوگی،انہیں اللّٰہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان
کے چہروں کواندھیری رات کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔وہی دوزخ
والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
لہٰذا ا ے لوگو! ’’اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ
یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِؕ-مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ
یَّوْمَىٕذٍ وَّ مَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِیْرٍ‘‘(شوری:۴۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دن کے آنے سے پہلے اپنے رب کا حکم مان لو
جو اللّٰہ کی طرف سے ٹلنے والا نہیں ۔اس دن تمہارے لئے
کوئی پناہ نہ ہوگی اور نہ تمہارے لئے انکار کرنا ممکن ہوگا ۔