Home ≫ ur ≫ Surah Al Mulk ≫ ayat 9 ≫ Translation ≫ Tafsir
تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِؕ-كُلَّمَاۤ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَذِیْرٌ(8)قَالُوْا بَلٰى قَدْ جَآءَنَا نَذِیْرٌ ﳔ فَكَذَّبْنَا وَ قُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ ۚۖ-اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ(9)وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ(10)فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْۚ-فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ(11)
تفسیر: صراط الجنان
{تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ: معلوم ہوتا ہے کہ غضب سے پھٹ جائے گی۔} یہاں جہنم کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ جہنم کفار پر غضبناک ہو گی اور یوں لگے گا جیسے غضب کی شدت کی وجہ سے جہنم ابھی پھٹ جائے گی اور ا س کے اَجزاء ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے۔( روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۸۳، ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ جہنم میں احساس ہے، وہ غضب بھی کرتی ہے بلکہ کلام بھی کرتی ہے جیساکہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاْتِ وَ تَقُوْلُ هَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ‘‘(ق:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن ہم جہنم سے فرمائیں گے:کیا تو بھر گئی؟ وہ عرض کرے گی: کیاکچھ اور زیادہ ہے؟
{كُلَّمَاۤ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ: جب کبھی کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا۔} جہنم کا حال بیان کرنے کے بعد اب اہلِ جہنم کا حال بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ آیت کے اس حصے اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ جب کبھی کفار کا کوئی گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا تو جہنم کے داروغہ حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے مددگار فرشتے ڈانٹتے ہوئے ان سے پوچھیں گے:اے کافرو! کیا دنیا میں تمہارے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیاتھا جو تمہارے سامنے تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیات پڑھتا ، تمہیں ا س دن کی ملاقات سے ڈراتا اور اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف دلاتا۔وہ اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے : کیوں نہیں ، بیشک ہمارے پاس ڈر سنانے والے تشریف لائے اور اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے اَحکام پہنچائے، اللّٰہ تعالیٰ کے غضب اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا،لیکن ہم نے انہیں جھٹلایا اور دُنْیَوی کاموں میں مشغولیّت اور تکبُّر میں حد سے بڑھنے کی وجہ سے ہم نے ان آیات کے بارے میں کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی چیز نہیں اتاری ، اے ہمیں ڈرانے والو!تم تو بڑی گمراہی میں ہی ہو۔جہنم کے خازن انہیں مزید ڈانتے ہوئے کہیں گے ’’کیا تم نے رسولوں کی زبان سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیات نہیں سنیں اور ان کے معانی کو نہیں سمجھا تاکہ تم انہیں نہ جھٹلاتے ؟ کفار جواب دیتے ہوئے کہیں گے اگر ہم نے دنیا میں رسولوں کی ہدایت کو دل سے سنا ہوتا اور اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے اسے سمجھا ہوتا تو آج ہم دوزخ والوں میں سے نہ ہوتے۔( روح البیان، الملک، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۱۰ / ۸۴-۸۵، خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۴ / ۲۹۰، مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۱۲۶۳، ملتقطاً)
بعض مسلمان بھی جہنم میں داخل ہوں گے :
یاد رہے کہ قیامت کے دن ایسا نہیں ہو گا کہ صرف کافروں کو ہی جہنم میں ڈالا جائے گا بلکہ بعض گنہگار مسلمان بھی ایسے ہوں گے جنہیں ان کے گناہوں کی سزا دینے کے لئے جہنم میں داخل کیا جائے گا لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے اور اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دئیے ہوئے اَحکامات کے مطابق نیک عمل کرنے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے تاکہ قیامت کے دن جہنم کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو نے اور اس بات پر پچھتانے سے بچ جائے کہ کاش! میں نے اللّٰہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکامات کے مطابق زندگی گزاری ہوتی تو آج مجھے جہنم میں داخل نہ کیا جاتا ۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضاوالی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جہنم اور ا س کے عذابات سے ہمیں محفوظ فرمائے ،اٰمین۔
{وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ: اور وہ کہیں گے: اگر ہم سنتے یا سمجھتے۔} امام عبد اللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ احکامِ شرع کا مدار دلیلِ عقلی اور دلیلِ سَمعیدونوں پر ہے اور دونوں حجت ِلازمہ ہیں ۔( مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۶۳)
{فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ: تو اب انہوں نے اپنے گناہ کا اقرار کیا۔} ارشاد فرمایا کہ اب(جہنم میں داخل ہوتے وقت) انہوں نے اپنے گناہ کا اقرار کیا کہ ہم رسولوں کی تکذیب کرتے تھے ! اس وقت چاہے یہ اقرار کریں یا انکار انہیں ا س کا کوئی فائدہ نہیں اور جہنمیوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے۔( مدارک، الملک، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۱۲۶۳، ملخصاً)