banner image

Home ur Surah Al Muminun ayat 1 Translation Tafsir

اَلْمُؤْمِنُوْن

Al Muminun

HR Background

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(1)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{قَدْ اَفْلَحَ:بیشک کامیاب ہوگئے۔} اس آیت میں  ایمان والوں  کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ  اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مقصد میں  کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں  داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں  گے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱، ۸ / ۲۵۸، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۶۶، ملتقطاً)

حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے :

            یاد رہے کہ ہر ایک نے موت کا کڑوا ترین ذائقہ چکھ کر ا س دنیا سے کوچ کرنا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے اور جسے اس دن جہنم کے دردناک عذابات سے بچا لیاگیا اور بے مثل نعمتوں  کی جگہ جنت میں  داخل کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہے، جیسا کہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَ‘‘(اٰل عمران:۱۸۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں  تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں  گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں  داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔

            اور جہنم سے بچنے اور جنت میں  داخلے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو جہنم سے بچنا اور جنت میں  داخل ہونا پسند ہو تو اسے موت ضرور اس حال میں  آئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جس معاملے کو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہو وہی معاملہ دوسروں  کے ساتھ کرے۔( مسند امام احمد، مسند عبد  اللہ بن عمرو بن العاص رضی  اللہ تعالی عنہما، ۲ / ۶۲۵، الحدیث: ۶۸۲۱)

            اور چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں  ا س لئے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس کی حفاظت کی بھرپور کوشش کرنا ضرور ی ہے تاکہ موت کے وقت ایمان سلامت رہے اور قیامت کے دن جنت میں  داخلہ نصیب ہو۔

سورۂ مومنون کی ابتدائی دس آیات کی فضیلت:

            سورۂ مومنون کی ابتدائی دس آیات کے بارے میں  حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  ’’جب نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرۂ اقدس کے پاس مکھیوں  کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز سنائی دیتی۔ایک دن وحی نازل ہوئی تو ہم کچھ دیر ٹھہرے رہے، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا مانگی’’اے اللّٰہ!عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  زیادہ عطا کرنا اور کمی نہ فرمانا، ہمیں  عزت دینا اور ذلیل نہ کرنا،ہمیں  عطا فرما نااور محروم نہ رکھنا۔ہمیں  چن لے اور ہم پر کسی دوسرے کو نہ چن۔اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمیں  راضی فرما اور ہم سے راضی ہو جا۔اس کے بعد ارشاد فرمایا’’مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں ، جس نے ان میں  مذکور باتوں  کو اپنایا وہ جنت میں  داخل ہو گا،پھر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ’’قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ سے لے کر دسویں  آیت کے آخر تک پڑھا۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۷، الحدیث: ۳۱۸۴)