banner image

Home ur Surah Al Muminun ayat 100 Translation Tafsir

اَلْمُؤْمِنُوْن

Al Muminun

HR Background

لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّاؕ-اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىٕلُهَاؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(100)

ترجمہ: کنزالایمان شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں ہِشت یہ تو ایک بات ہے جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے اور ان کے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان جس دنیا کو میں نے چھوڑدیا ہے شاید اب میں اس میں کچھ نیک عمل کرلوں ۔ ہرگز نہیں ! یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے ایک رکاوٹ ہے اس دن تک جس دن وہ اٹھائے جائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا: شاید اب میں  کچھ نیک عمل کرلوں ۔} ارشاد فرمایا کہ کافر اپنی موت کے وقت عرض کرے گا کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے دنیا کی طرف واپس لوٹادے،شاید اب میں  اس دنیا میں  کچھ نیک عمل کرلوں جسے میں  نے چھوڑدیا ہے اور نیک اعمال بجا لا کر اپنی غلطیوں  اورکوتاہیوں  کا تَدارُک کروں ۔ اس پر اس سے فرمایا جائے گا’’ہرگز نہیں ! یہ تو ایک بات ہے جو وہ حسرت و ندامت سے کہہ رہا ہے، یہ ہونے والی نہیں  اور اس کا کچھ فائدہ نہیں ۔ مزید ارشاد فرمایا کہ ان کے آگے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں  دنیا کی طرف واپس ہونے سے مانع ہے اور وہ موت ہے کہ قانونِ الٰہی یہی ہے کہ جو مرگیا وہ دوبارہ دنیا میں  نہیں  لوٹایا جائے گا۔ یہاں  یہ بات ذہن میں  رہے کہ انبیاء و اَولیاء کا قدرت ِ الٰہی اور اِذنِ الٰہی سے مُردوں  کو زندہ کرنا اس آیت کے مُنافی نہیں  کہ آیت میں  عمومی قانون بیان کیا گیا ہے جبکہ انبیاء و اَولیاء کا زندہ کرنا قدرت ِ الٰہی کا اِظہار ہے۔

موت کے وقت دنیا میں  واپسی کا سوال مومن و کافر دونوں  کریں  گے:

            یاد رہے کہ جس طرح کافراپنی موت کے وقت ایمان لانے اورنیک اعمال کرنے کے لئے دوبارہ دنیا میں  لوٹا دئیے جانے کاسوال کریں  گے اسی طرح وہ مسلمان بھی دنیا میں  لوٹائے جانے کا سوا ل کریں  جنہوں  نے نیک اعمال کرنے  میں  کمی یا کوتاہی کی ہو گی، چنانچہ  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰)وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘  (منافقون:۹۔۱۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاریاولاد تمہیں   اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں  سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ ہماری راہ میں  خرچ کرلو کہ تم میں  کسی کو موت آئے تو کہنے لگے، اے میرے رب !تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں  مہلت نہ دی کہ میں  صدقہ دیتا اور صالحین میں  سے ہوجاتا۔اور ہرگز اللّٰہکسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا وعدہ آجائے اور اللّٰہتمہارے کاموں  سے خبردار ہے۔

            ترمذی شریف میں  ہے،حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا:جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ بَیْتُ  اللہ شریف کا حج کرنے پہنچ سکتا ہو یا اس پر زکوٰۃ فرض ہو، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے یا زکوٰۃ نہ دے تو وہ مرتے وقت دنیا میں  واپسی کا سوال کرے گا۔ایک شخص نے کہا:اے عبد اللہ بن عباس! رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا، آپ  اللہ تعالیٰ سے ڈریں ، دنیا میں  واپسی کا سوال تو صرف کفار کریں  گے (اور آپ مسلمانوں  کے بارے میں  ایسا کہہ رہے ہیں ) حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا نے فرمایا:میں  اس کے بارے میں  تمہارے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھتا ہوں ، چنانچہ آپ نے سورہِ منافقون کی ان تین آیات کی تلاوت فرمائی۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المنافقین، ۵ / ۲۰۸، الحدیث: ۳۳۲۷)

             لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ادائیگی اور ا س کے اَحکام کی بجا آوری میں  ہر گز ہر گز غفلت سے کام نہ لے اور دنیا کی زندگی میں  زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کر لے تاکہ موت کے وقت ایسے حال کا سامنا کرنے سے محفوظ رہے۔