Home ≫ ur ≫ Surah Al Muminun ≫ ayat 108 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا ضَآلِّیْنَ(106)رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ(107)قَالَ اخْسَــٴُـوْا فِیْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ(108)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا: وہ کہیں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈانٹ سن کر کفار کہیں گے:ہم اپنے اختیار سے لذتوں اور نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہوئے اور یہ چیز ہم پر ایسی غالب آئی کہ ہم اس برے انجام تک پہنچ گئے اور انہی لذتوں کی وجہ سے ہم لوگ حق سے گمراہ ہو گئے تھے اور ہم نے تیرے نبی کو جھٹلا دیا اور تیری نافرمانیاں کیں ۔اے ہمارے رب! ہمیں دوزخ سے نکال دے،اس کے بعد اگر ہم نے دوبارہ ویسے ہی کام کئے تو بیشک ہم اپنی جانوں پر ظلم کرنے میں حد سے بڑھنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: دھتکارے ہوئے جہنم میں پڑے رہو کیونکہ یہ سوال کرنے کی جگہ نہیں اور مجھ سے جہنم سے نکال کر دنیا میں لوٹا دینے کی بات نہ کرو کیونکہ اب ایسا کبھی بھی نہیں ہو گا۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۸، ۶ / ۱۰۹)
جہنمیوں کی فریاد:
ان آیات میں جہنمیوں کی فریاد کا ذکر ہوا،اس مناسبت سے یہاں دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ دوزخی لوگ جہنم کے داروغہ حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام کو پکار کر کہیں گے اے مالک! تیرا رب (ہمیں موت دے کر) ہمارا کام پورا کردے۔حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام ان سے کہیں گے کہ تم جہنم ہی میں پڑے رہو گے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کریں گے پکاریں گے اور کہیں گے ’’اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے، اے ہمارے رب! ہمیں دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ اُنہیں جواب دیا جائے گا کہ دھتکارے ہوئے جہنم میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔ اب اُن کی امیدیں منقطع ہوجائیں گی اور اس وقت ندامت اور خرابی کی پکار میں مشغول ہوں گے۔( ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ طعام اہل النار، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۲۵۹۵)
(2)…حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ دوزخی لوگ جہنم کے داروغہ حضرت مالک عَلَیْہِ السَّلَام کو پکاریں گے تو وہ چالیس برس تک انہیں جواب نہ دیں گے، اس کے بعد وہ کہیں گے کہ تم جہنم ہی میں پڑے رہو گے پھر وہ کہیں گے’’اے ہمارے رب! ہمیں دوزخ سے نکال دے پھر اگر ہم ویسے ہی کریں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ اور انہیں دنیا سے دگنی عمر تک جواب نہ دیا جائے گا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب ذکر النار، ما ذکر فیما اعدّ لاہل النار وشدّتہ، ۸ / ۹۲، الحدیث: ۶)
اور دنیا کی عمر کتنی ہے اس بارے میں کئی قول ہیں ’’ بعض نے کہا کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے، بعض نے کہا بارہ ہزار برس اور بعض نے کہا کہ تین لاکھ ساٹھ برس ہے۔ وَ اللہ تَعَالٰی اَعْلَم(التذکرہ للقرطبی ، باب منہ و ما جاء فی خروج الموحدین من النار۔۔۔ الخ، ص۴۱۸، صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۴ / ۱۳۷۸)اور آخری بیان کردہ عمر بھی قطعی نہیں ہے۔