ترجمہ: کنزالایمان
وہ تو نہیں مگر ہماری دنیا کی زندگی کہ ہم مرتے جیتے ہیں اور ہمیں اٹھنا نہیں ۔
وہ تو نہیں مگر ایک مرد جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور ہم اسے ماننے کے نہیں ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
زندگی تو صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم اٹھائے جانے والے نہیں ہیں ۔
یہ تو صرف ایک ایسا مرد ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھاہے اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا: زندگی تو
صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے۔} اُن سرداروں نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بہت بعید جانا اور
سمجھا کہ ایسا کبھی ہونے والا ہی نہیںاور
اسی باطل خیال کی بنا پر کہنے لگے کہ زندگی تو صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے۔ اس سے
ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دُنْیَوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیںصرف اتنا ہی ہے، ہم مرتے جیتے ہیںکہ ہم میںکوئی مرتا ہے کوئی پیدا ہوتا ہے اور ہم مرنے کے بعداٹھائے جانے والے
نہیںہیں ۔( خازن، المؤمنون،
تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۳۲۵، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۷۵۷، ملتقطاً)
{اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌ: یہ تو صرف ایک مرد ہے۔} کافر
سرداروںنے اپنے رسول حضرت ہودعَلَیْہِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارے میںیہ کہا کہ وہ تو صرف
ایک ایسا مرد ہے جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّپر جھوٹ باندھاہے کہ اپنے آپ کو اس کا نبی بتایا اور مرنے کے بعد
زندہ کئے جانے کی خبر دی اور ہم اس کی بات کا یقین کرنے والے نہیںہیں ۔( مدارک،
المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۸، ص۷۵۷)
سورت کا تعارف
سورۂ
مؤمنون کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ مؤمنون مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ
المؤمنین، ۳ / ۳۱۹)
رکوع اور آیات
کی تعداد:
اس میں 6رکوع اور 118آیتیں ہیں ۔
’’مؤمنون ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :
اس سور ت کی ابتداء میں مومنوں کی کامیابی،ان کے اوصاف اور آخرت میں ان کی جزاء بیان کی گئی ہے، اس مناسبت سے اس
سورت کا نام ’’سورۂ مؤمنون‘‘ رکھا گیا ہے۔
سورۂ
مؤمنون کی فضیلت:
حضرت یزید بن بابنوس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ ہم نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہَاسے عرض کی :اے اُمُّ المؤمنین! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، حضور پُر
نور صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اَخلاق کیسے تھے؟ارشاد فرمایا: حضور اقدس صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا خُلق قرآن تھا،پھر فرمایا:’’ تم سورۂ مؤمنون پڑھتے ہوتوپڑھو۔
چنانچہ انہوں نے ’’قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ سے لے
کر دس آیتیں پڑھیں تو حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَاللہ تَعَالٰی
عَنْہَانے
فرمایا: ’’رسولُاللہ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے اَخلاق ایسے ہی تھے۔( مستدرک، کتاب
التفسیر، تفسیر سورۃ المؤمنون، خلق اللہ جنّۃ
عدن۔۔۔ الخ، ۳ / ۱۵۳، الحدیث: ۵۳۳۳)
مضامین
سورۂ
مؤمنون کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں خالق کے وجود،اس کی وحدانیت،نبوت و رسالت کے
ثبوت اورموت کے بعد زندہ کئے جانے پر مختلف دلائل کے ساتھ کلام کیا گیا
ہے،اور اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے
گئے ہیں :
(1)…اس سورت کی ابتدامیں 7اَوصاف کے حامل مومنوں کو آخرت میں کامیاب ہونے کی بشارت سنائی گئی اور آخرت میں انہیں ملنے والی عظیم جزا فردوس کی میراث بیان کی گئی۔
(2)… اللہ تعالیٰ کے
وجود،اس کی وحدانیت اور قدرت پر انسان کی مختلف مراحل میں تخلیق، آسمانوں کو کسی سابقہ مثال کے بغیر پیدا کرنے، باغات اور
نباتات کی نشوونما کے لئے آسمان کی طرف سے پانی نازل کرنے، انسان کے لئے مختلف
مَنافع والے جانور پیدا کرنے اور سامان کی نقل و حمل اور سواری کے لئے کشتیوں کو انسان کے تابع کرنے کے ساتھ اِستدلال کیا گیا
ہے۔
(3)…مشرکین کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر اپنے حبیب صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تسلی دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح،حضرت ہود،حضرت موسیٰ، حضرت ہارون، حضرت
عیسیٰعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی والدہ حضرت مریم رَضِیَاللہ تَعَالٰی
عَنْہَاکے واقعات بیان فرمائے۔
(4)…دین ِاسلام قبول کرنے سے تکبر کرنے پرنیز اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف
جنون اور جادو گر ہونے وغیرہ کی نسبت کرنے پر، اور سیّد المرسَلینصَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے کفارِ مکہ کو سرزنش کی گئی اور
عذاب کی وعید سنائی گئی اور انہیں قیامت
کے دن پہنچنے والے عذاب اور سختی کی خبر دی گئی اور ان کے سامنے مرنے کے بعد
دوبارہ زندہ کئے جانے پر مختلف دلائل پیش کئے گئے۔
(5)…انہی آیات کے ضمن میں انسان پر کی گئی نعمتوں کے ذریعے اسے نصیحت کی گئی اورمرنے کے بعد
دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرنے، اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت
کرنے اور اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرانے کا شدید ردکیا گیا۔
(6)…حساب کے وقت کی شدّتیں اور ہَولْناکیاں بیان کی گئیں ۔
(7)…قیامت کے دن لوگوں کو سعادت مند اور بد بخت دو گروہوں میں تقسیم کر دئیے جانے کا ذکر کیا گیا۔
(8)…اس دن نسب کے فائدہ مند نہ ہونے کو بیان کیا گیا
اورکفار کی دنیا کی طرف لوٹ جانے اور نیک اعمال بجا لانے کی تمنا بیان کی گئی۔
(9)…مسلمانوں پر ہنسنے اور ان کا مذاق اڑانے پر کفار کو سرزنش
کی گئی اور ان سے دنیا میں ٹھہرنے کی مدت
کے بارےمیں سوال کیا گیا۔
(10)…بتوں کی
پوجا کرنے والوں کے خسارے اور نیک اعمال
کرنے والے اہلِ ایمان کی نجات اور ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا
ذکر کیا گیا۔
مناسبت
سورۂ حج
کے ساتھ مناسبت:
سورۂ مؤمنون کی اپنے سے ماقبل سورت ’’حج‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ
سورۂ حج کے آخر میں مسلمانوں کو اُخروی کامیابی حاصل ہونے کی امید پر اچھے
اعمال کرنے کا حکم دیا گیا اور سورۂ مؤمنون کی ابتداء میں وہ اچھے کام بتا دئیے گئے جن سے مسلمان اخروی
کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔( تناسق الدرر، سورۃ المؤمنون، ص۱۰۳)