Home ≫ ur ≫ Surah Al Muminun ≫ ayat 51 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌﭤ(51)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ: اے رسولو!} یہ حکم تمام رسولوں کو تھاجیسا کہ آگے حدیث نمبر چار سے واضح ہے۔ البتہ بطورِ ندا مُخاطَب کئے جانے کے اعتبار سے بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں رسولوں سے مراد تمام رسول ہیں اور ہر ایک رسول کو اُن کے زمانے میں یہ ندا فرمائی گئی۔ ایک قول یہ ہے کہ رسولوں سے مراد خاص سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے مرادحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ان کے علاوہ اور بھی کئی قول ہیں ۔ پاکیزہ چیزوں سے مراد حلال چیزیں اور اچھے کام سے مراد شریعت کے اَحکام پر اِستقامت کے ساتھ عمل کرنا ہے۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۷۵۹، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۳۲۶، ملتقطاً)
پاکیزہ اور حلال چیزیں کھانے کی ترغیب اور ناپاک و حرام چیزیں کھانے کی مذمت:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پاکیزہ اور حلال چیزیں کھانے کاحکم دیا اور قرآنِ مجید میں د وسرے مقام پریہی حکم اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو بھی دیا ہے،اس مناسبت سے یہاں پاکیزہ و حلال چیزیں کھانے کی ترغیب اور ناپاک و حرام اَشیاء کھانے کی مذمت پر مشتمل 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ۔
(1)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص پاکیزہ (یعنی حلال) چیز کھائے اور سنت کے مطابق عمل کرے اور لوگ ا س کے شر سے محفوظ رہیں تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۳، الحدیث: ۲۵۲۸)
(2)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر وہ جسم جو حرام سے پلابڑھا توآگ اس سے بہت قریب ہوگی۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی طیب المطعم والملبس،۵ / ۵۶،الحدیث:۵۷۵۹)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے منہ میں مٹی ڈال لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ میں ایسی چیز ڈالے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیاہے۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی طیب المطعم والملبس،۵ / ۵۷،الحدیث: ۵۷۶۳)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا:
’’ یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھاکام کرو،بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔
اور فرمایا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھریچیزیں کھاؤ۔
پھر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک ایسے شخص کاذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں ،وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے’’یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو،اس کا لباس حرام ہو،اس کی غذا حرام ہو تو ا س کی دعا کہاں قبول ہو گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۵(۱۰۱۵))
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو حلال رزق کھانے اور حرام رزق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
حلال رزق پانے اور نیک کاموں کی توفیق ملنے کی دعا:
حضرت حنظلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے مجھ سے عرض کی کہ آپ یہ دو دعائیں مانگا کریں : ’’اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ طَیِّبًا وَّ اسْتَعْمِلْنِیْ صَالِحًا‘‘ یعنی اے اللہ !، مجھے پاکیزہ رزق عطا فرما اور مجھے نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔(نوادر الاصول، الاصل الثانی والستون المائۃ، ۱ / ۶۳۹، الحدیث: ۸۹۶(
عبادت کرنے سے کو ئی مُسْتَغنی نہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی عبادات فرض تھیں ، لہٰذا کوئی شخص خواہ وہ کسی درجہ کا ہوعبادت سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔اس سے ان لوگوں کو عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے جو فقیروں کالبادہ اوڑھ کر اور اللہ تعالیٰ کے کامل اولیاء جیسی شکل و صورت بنا کر یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اب ہم پر کوئی عبادت فرض نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو مقام انبیاءِ کرام اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حاصل ہے وہ کسی ولی اورصحابی کو حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی کامل ولی ان کے مقام تک پہنچنے کا دعویٰ کر سکتا ہے تو جب انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر عبادات فرض رہیں اور انہیں کوئی عبادت معاف نہ ہوئی تو یہ بناوٹی صوفی کس منہ سے دعویٰ کر رہا ہے کہ اب اس پر کوئی عبادت فرض نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے،اٰمین۔