banner image

Home ur Surah Al Mumtahanah ayat 10 Translation Tafsir

اَلْمُمْتَحِنَة

Al Mumtahanah

HR Background

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّؕ-اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِهِنَّۚ-فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِؕ-لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَ لَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَهُنَّؕ-وَ اٰتُوْهُمْ مَّاۤ اَنْفَقُوْاؕ-وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّؕ-وَ لَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَ سْــٴَـلُوْا مَاۤ اَنْفَقْتُمْ وَ لْیَسْــٴَـلُوْا مَاۤ اَنْفَقُوْاؕ-ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِؕ-یَحْكُمُ بَیْنَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(10)

ترجمہ: کنزالایمان اے ایمان والو جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں کفرستان سے اپنے گھر چھوڑ کر آئیں تو ان کا امتحان کرلو اللہ ان کے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے پھر اگر وہ تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو انہیں کافروں کو واپس نہ دو نہ یہ انہیں حلال نہ وہ انہیں حلال اور ان کے کافر شوہروں کو دے دو جو اُن کا خرچ ہوا اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان سے نکاح کرلو جب ان کے مہر انہیں دو اور کافرنیوں کے نکاح پر جمے نہ رہو اور مانگ لو جو تمہارا خرچ ہوا اور کافر مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا یہ اللہ کا حکم ہے وہ تم میں فیصلہ فرماتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں (کفرستان سے) اپنے گھر چھوڑ کر آئیں تو ان کا امتحان کرو، اللہ ان کے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے، پھر اگروہ تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ لوٹاؤ، نہ یہ ان (کافروں ) کیلئے حلال ہیں اورنہ وہ (کافر) ان کیلئے حلال ہیں اور ان کے کافر شوہروں کووہ (حق مہر) دیدو جو انہوں نے خرچ کیا ہواور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان سے نکاح کرلو جب ان کے مہر انہیں دو اور کافرہ عورتوں کے نکاح پر نہ جمے رہو اور وہ مانگ لو جو تم نے خرچ کیا ہو اور کافر مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا، یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تم میں فیصلہ فرماتا ہے اور اللہ بہت علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ: اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں  اپنے گھر چھوڑ کر آئیں ۔} اس آیت میں  ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں  کے بارے میں  7 اَحکام دئیے گئے ہیں ،

(1)…اے ایمان والو! جب کفرستان سے مسلمان عورتیں  اپنے گھر چھوڑ کر تمہارے پاس آئیں  تو ان کی جانچ کرلیا کرو کہ ان کی ہجرت خالص دین کیلئے ہے ،ایسا تو نہیں  ہے کہ اُنہوں  نے شوہروں  کی عداوت میں  گھر چھوڑا ہو اور یاد رکھو کہ ان عورتوں  کا امتحان تمہارے علم کے لئے ہے ورنہ اللّٰہ تعالیٰ تو ان کے ایمان کا حال تم سے بہتر جانتا ہے۔

            ان کی جانچ کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے قسم لی جائے جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: ان عورتوں  کو قسم دی جائے کہ وہ نہ شوہروں  کی عداوت میں  نکلی ہیں  اور نہ اور کسی دُنْیَوی وجہ سے بلکہ اُنہوں  نے صرف اپنے دین و ایمان کیلئے ہجرت کی ہے۔

(2)… اگر جانچ کے بعدوہ تمہیں  ایمان والیاں  معلوم ہوں  تو انہیں  ان کے کافرشوہروں  کی طرف واپس نہ لوٹاؤ کیونکہ نہ یہ مسلمان عورتیں  ان کافروں کیلئے حلال ہیں  اورنہ وہ کافر مرد ان مسلمان عورتوں کیلئے حلال ہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر کافر کی کافرہ بیوی ایمان لا کر ہجرت کرجائے تووہ اس کافر کے نکاح سے نکل جائے گی۔

(3)… ا ن کے کافر شوہروں  کووہ حق مہر دیدو جو انہوں  نے ان عورتوں  کو دئیے تھے۔ شانِ نزول: یہ آیت صلحِ حُدَیْبیہ کے بعد نازل ہوئی ،صلح میں  یہ شرط تھی کہ مکہ والوں  میں  سے جو شخص ایمان لا کرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہو اس کو اہلِ مکہ واپس لے سکتے ہیں  اور اس آیت میں  یہ بیان فرمادیا گیا کہ یہ شرط صرف مردوں  کیلئے ہے، عورتوں  کی تصریح عہد نامہ میں  نہیں  اورنہ عورتیں  اس قرارداد میں  داخل ہوسکتی ہیں  کیونکہ مسلمان عورت کافر کیلئے حلال نہیں  ۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ آیت کا یہ حصہ پہلے حکم (یعنی انہیں  ان کے کافرشوہروں  کی طرف واپس نہ لوٹاؤ) کا ناسخ ہے۔

             یہ قول اس صورت میں  درست ہے کہ عورتیں  صلح کے عہد میں  داخل ہوں  ،لیکن عورتوں  کا اس عہد میں  داخل ہونا صحیح نہیں  کیونکہ بخاری شریف میں عہد نامہ کے یہ الفاظ مروی ہیں : ’’لَایَاتِیْکَ مِنَّا رَجُلٌ وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلَّا رَدَدْتَہٗ‘‘ یعنی ہم سے جو مرد آپ کے پاس پہنچے خواہ وہ آپ کے دین ہی پر ہو آپ اس کو واپس دیں  گے۔( بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل الحرب۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۲۳، الحدیث: ۲۷۳۱، ۲۷۳۲)  ان میں  عورت کا ذکر نہیں  ہے۔

            یہاں  اس مہر سے متعلق دو شرعی مسائل بھی ملاحظہ ہوں :

          (1)… یہ مہر دینا اس صورت میں  ہے جب کہ عورت کا کافر شوہر اسے طلب کرے اوراگر طلب نہ کرے تو اس کو کچھ نہیں  دیا جائے گا۔

          (2) …اسی طرح اگر کافر نے اس مہاجرہ عورت کو مہر نہیں  دیا تھا تو بھی وہ کچھ نہ پائے گا۔

(4)… تم پر کچھ گناہ نہیں  کہ ان ہجرت کرنے والی عورتوں  کو مہر دے کر ان سے نکاح کرلو اگرچہ دارُالحرب میں  ان کے شوہر ہوں  کیونکہ اسلام لانے سے وہ ان شوہروں  پر حرام ہوگئیں  اور ان کی زوجیت میں  نہ رہیں  ۔ یاد رہے کہ یہاں مہر دینے سے مراد اس کو اپنے ذمہ لازم کرلینا ہے اگرچہ بِالفعل نہ دیا جائے۔ نیزاس سے یہ ثابت ہوا کہ ان عورتوں  سے نکاح کرنے پر نیا مہر واجب ہوگا جبکہ ان کے شوہروں  کو جو ادا کردیا گیا وہ اس میں  شمار نہیں  ہوگا گویا یہاں  دو قسم کی رقم دینا ہوگی ، ایک سابقہ کافر شوہر کو اور دوسری بطورِ مہر عورت کو۔

(5)… کافرہ عورتوں  کے نکاح پر نہ جمے رہو،یعنی جو عورتیں  دارالحرب میں  رہ گئیں  یا مُرتَدَّہ ہو کردارالحرب میں  چلی گئیں  ان سے زوجیت کا علاقہ نہ رکھو، چنانچہ یہ آیت نازل ہونے کے بعد رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے ان کافرہ عورتوں  کو طلاق دیدی جو مکہ مکرمہ میں  تھیں ۔یہاں  یہ مسئلہ یاد رہے کہ اگر مسلمان کی عورت (مَعَاذَاللّٰہ) مرتدہ ہوجائے تو وہ اس کے نکاح سے باہر نہ ہوگی البتہ عورت کے مسلمان ہونے کے بعد دوبارہ اسی شوہر سے نکاح ضرورپڑھا جائے گا۔

(6)… ان عورتوں  کو تم نے جو مہر دیئے تھے وہ ان کافروں  سے وصول کرلو جنہوں نے اُن سے نکاح کیا۔

(7)…کافروں  کی جو عورتیں  ہجرت کرکے دارالاسلام میں  چلی آئیں  ،ان پر کافروں نے جو خرچ کیا وہ اُن مسلمانوں  سے مانگ لیں جنہوں نے ان عورتوں  سے نکاح کیا ہے۔

            آیت کے آخر میں  ارشاد فرمایا کہ یہاں  جو اَحکام دئیے یہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرماتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ علم والا، حکمت والا ہے۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴ / ۲۵۹، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۲۳۳-۱۲۳۴)