Home ≫ ur ≫ Surah Al Mumtahanah ≫ ayat 5 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۚ-اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ٘-كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَ مَاۤ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَ اِلَیْكَ اَنَبْنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(4)رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ اغْفِرْ لَنَا رَبَّنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(5)
تفسیر: صراط الجنان
{قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ: بیشک ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں تمہارے لیے بہترین پیروی تھی۔} اس آیت میں حضرت حاطب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور دوسرے مومنین سے خطاب ہے اور سب کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنے کا حکم ہے کہ دین کے معاملے میں رشتہ داروں کے ساتھ ان کا طریقہ اختیار کریں ۔چنانچہ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوران پر ایمان لانے والوں کی سیرت میں تمہارے لیے بہترین پیروی تھی، جب انہوں نے اپنی مشرک قوم سے کہا: بیشک ہم تم سے اور ان بتوں سے بیزار ہیں جنہیں تم اللّٰہ تعالیٰ کے سوا پوجتے ہو، ہم تمہارے منکر ہوئے اور ہم نے تمہارے دین کی مخالفت اختیار کی اور جب تک تم ایک اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے تب تک ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور عداوت ظاہر ہوگئی، البتہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے عُرفی باپ کے لئے مغفرت کی دعا مانگنا پیروی کے قابل نہیں کیونکہ یہ ایک وعدے کی بناء پر تھا اور جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ظاہر ہوگیا کہ وہ کفر پر ہی قائم ہے تو آپ نے اس سے بیزاری ظاہر کر دی، لہٰذا یہ کسی کیلئے جائز نہیں کہ اپنے کافررشتہ دار کیلئے دعائے مغفرت کرے۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۲۵۷، مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۳۲، ملتقطاً)
{رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا: اے ہمارے رب! ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا۔} یہ بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اور اُن مومنین کی دعا ہے جو آپ کے ساتھ تھے اور یہ اِستثناء سے پہلے والے کلام کے ساتھ مُتَِّصل ہے، لہٰذا مومنین کو اس دعا میں بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی کرنی چاہئے۔( مدارک، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۳۲، ملخصاً)
نوٹ: خیال رہے کہ مسلمانوں پر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی مُطْلَقاً لازم ہے جبکہ دیگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی خاص اعمال میں ہے کیونکہ سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِ مُ السَّلَام کی شریعت کے بہت سے اَحکام مَنسوخ بھی ہوگئے ہیں ، لہٰذا یہ آیت سورہِ اَحزاب کی اس آیت ’’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ‘‘ کے خلاف نہیں ،کیونکہ یہاں خاص صورتوں میں خاص پیروی کا حکم ہے اور سورہ ِاحزاب کی آیت میں مطلقاً پیروی کا حکم ہے۔
آیت ’’قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں ،
(1)… انبیا ءِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت یہ ہے کہ اپنا ایمان اپنے قول اور فعل سے ظاہر کردے۔
(2)… کفا ر سے دشمنی رکھنا اتناہی ضروری ہے جتنا مسلمانوں سے محبت رکھنا ضروری ہے۔
(3)… اللّٰہ تعالیٰ کے اِذن اور ا س کی اجازت سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہگار مومنوں سے عذاب دور کریں گے اور ان کی شفاعت سے عذاب دور ہوگا ، لہٰذا یہ آیت مومنوں کے حق میں شفاعت نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔
{رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کیلئے آزمائش نہ بنا۔} یعنی یہ دعا مانگنے میں بھی مسلمانوں کو ان کی پیروی کرنی چاہئے کہ اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، کافروں کو ہم پر غلبہ دے کر ہمیں ان کیلئے آزمائش نہ بنا کیونکہ وہ اپنے آپ کو حق پر اور مسلمانوں کو باطل پر گمان کرنے لگیں گے اور یوں ان کا کفر اور بھی بڑھ جائے گا نیز اے اللّٰہ، ہمیں بخش دے، اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک تو ہی عزت والا اور حکمت والا ہے۔