Home ≫ ur ≫ Surah Al Mutaffifin ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ(1)الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ(2)وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَﭤ(3)اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓىٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ(4)لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ(5)یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَﭤ(6)
تفسیر: صراط الجنان
{وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ: کم تولنے والوں کے لئے خرابی ہے۔} جب رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو اس وقت یہاں کے لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ ناپ تول میں خیانت کرتے تھے اور خاص طور پر ابوجُہَینہ ایک ایسا شخص تھا جس نے چیزیں لینے اور دینے کے لئے دو جدا جدا پیمانے رکھے ہوئے تھے ۔ان لوگوں کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں اور اس آیت اور ا س کے بعد والی5آیات میں فرمایا گیا کہ کم تولنے والوں کیلئے خرابی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں توکم کردیں ،کیا جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ یقین نہیں رکھتے کہ انہیں ایک عظمت والے دن کے لیے اٹھایا جائے گا اوراس دن ان سے ذرے ذرے کا حساب کیا جائے گا،اگر انہیں اٹھائے جانے کا یقین ہوتا تو ناپ تول میں کمی کرنے سے باز رہتے اور عظمت والا دن وہ ہے جس دن سب لوگ اپنی قبروں سے نکل کر ربُّ العالَمین کے حضور حساب اور جزاء کے لئے کھڑے ہوں گے۔( خازن، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۱-۶، ۴ / ۳۵۹-۳۶۰، مدارک، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۱-۶، ص۱۳۲۹، ملتقطاً)
ناپ ،تول صحیح رکھنے کا فائدہ اور نہ رکھنے کا نقصان:
یاد رہے کہ ناپ تول ایک انتہائی اہم معاملہ ہے کیونکہ تقریباً تمام لوگوں کو اَشیاء بیچنے اور خریدنے سے واسطہ پڑتا ہے اور زیادہ تر چیزوں کا بیچنا اور خریدنا انہیں ناپنے اور تولنے پر ہی مَبنی ہے، اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کام کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ‘‘(الرحمٰن:۷۔۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آسمان کو اللّٰہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو۔اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔
اور ارشاد فرمایا: ’’لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ‘‘(حدید:۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔
اور صحیح ناپنے تولنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ماپ کرو تو پورا ماپ کرو اور بالکل صحیح ترازو سے وزن کرو ۔یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔
صحیح ناپنے اور تولنے کا انجام دنیا میں بھی بہتر ہوتا ہے کہ اس سے لوگوں کا اعتبار قائم رہتا ہے، تجارت میں خوب اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں برکت ہوتی ہے اور آخرت میں بھی یقینا بہتر ہو گا کہ اِس حوالے سے لوگوں کا اُس پر کوئی حق نہیں ہوگا اور یوں لوگ اپناحق طلب کرنے کے لئے اسے نہیں پکڑیں گے ،یہ حرام رزق کھانے اور کھلانے کے عذاب سے بچ جائے گا اور ا س کے نیک اعمال محفوظ رہیں گے اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ان کے لئے زیرِ تفسیر آیات میں سخت وعید ہے اور ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل حکایت میں بھی بڑی عبرت ہے،چنانچہ
حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ میں اپنے ایک پڑوسی کے پاس اس کے انتقال کے وقت گیا تو ا س نے مجھے دیکھ کر کہا: ’’اے مالک بن دینار! رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ، اس وقت مجھے اپنے سامنے آگ کے دو پہاڑ نظر آ رہے ہیں اور مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ ان پہاڑوں پر چڑھو لیکن ان پر چڑھنا میرے لئے دشوار ہے۔میں نے اس کے گھر والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو ان لوگوں نے بتایا کہ اس کے پاس غلہ ناپنے کے دو پیمانے ہیں ، ایک سے غلہ ناپ کر لیتا تھا اور دوسرے سے غلہ ناپ کر دیتا تھا۔حضرت مالک بن دینا ر رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے ان دونوں پیمانوں کو منگوایا اور انہیں ایک دوسرے پر رکھ کر توڑ دیا ،پھر میں نے اس شخص سے پوچھا کہ اب تمہارا کیا حال ہے؟اس نے جواب دیا میرے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہے بلکہ اب پہلے سے زیادہ خراب ہو گیا ہے۔( منہاج العابدین،العقبۃ الخامسۃ، اصول سلوک طریق الخوف والرجاء، الاصل الثالث، ص۱۶۶)
اللّٰہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صحیح ناپنے اور تولنے کی توفیق عطا فرمائے۔
{اَلَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ: وہ لوگ کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں ۔} یہ ایک اَخلاقی تنبیہ ہے کہ جب یہ خود لیتے ہیں تو پورا وصول کرتے ہیں لیکن دوسروں کو دیتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہیں جبکہ صحیح انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اپنے ساتھ دوسرے کا چاہتاہے۔حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ ما یحبّ لنفسہ، ۱ / ۱۶، الحدیث: ۱۳)
{وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَ: اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں توکم کردیں ۔} ناپ تول میں کمی کرنے کی تمام صورتیں ا س آیت میں داخل ہیں جیسے کپڑا ناپتے وقت لچک دار کپڑے کو کھینچ کر ناپنا،الاسٹک کو کھینچ کر ناپنا،باٹ کم رکھنا، باٹ تو پورا ہو لیکن تولنے میں ڈنڈی مار دینا، چیز کو زور سے ترازو میں رکھ کر فوراً اٹھا لینا،ترازو کے پلڑوں میں فرق رکھنا،ترازو کے جس حصے میں باٹ رکھے جاتے ہیں ا س کے نیچے کوئی چیز لگا دینا ،وزن کرنے کے الیکٹرونک آلات کی سیٹنگ میں یا میٹر میں تبدیلی کر کے کم تول کے دینا وغیرہ۔
{یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: جس دن سب لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔} یعنی جس دن سب لوگ اپنے اعمال کے حساب اور ان کی جز اکے لئے رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے اس دن ان لوگوں کا ناپ تول میں کمی کرنا اور ان کی جزا ظاہر ہو جائے گی۔( جلالین، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۶، ص۴۹۳، روح البیان، المطفّفین، تحت الآیۃ: ۶، ۱۰ / ۳۶۵، ملتقطاً)
ربُّ العالَمین کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے وقت لوگوں کا حال:
قیامت کے دن جب لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکلیں گے اور حشر کے میدان میں جمع ہوں گے ،پھر اپنے اعمال کے حساب و کتاب اور ان کی جزاء کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے تو اس وقت ان کا حال کیا ہو گا،اس سے متعلق درج ذیل3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ بشیر نام کا ایک آدمی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں بیٹھا کرتا تھا،ایک مرتبہ وہ تین دن بعد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا تو حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ا س کی بدلی ہوئی رنگت دیکھ کر ارشاد فرمایا’’اے بشیر! تیرا رنگ کیسے تبدیل ہو گیا؟اس نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، میں نے ایک اونٹ خریدا تھا، وہ مجھ سے بھاگ گیا تو میں تین دن تک اس کی تلاش میں لگا رہا اور میں نے ا س کے بارے میں کوئی شرط بھی نہیں رکھی تھی۔حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بھاگے ہوئے اونٹ کو تو واپس لوٹایا جا سکتا ہے،کیا اس کے علاوہ کسی اور چیز نے تیرا رنگ تو نہیں بدلا؟اس نے عرض کی :نہیں ۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ (آج تین دن تک اونٹ تلاش کرنے کی وجہ سے تیرا یہ حال ہو گیا ہے) تو اس دن تیرا کیا حال ہو گا جس کی مقدار 50,000سال ہے اور اس دن سب لوگ ربُّ العالَمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔( کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الافعال، الرّد بالعیب، ۲ / ۶۳، الجزء الرابع، الحدیث: ۹۹۵۰)
(2)…حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس دن تمام انسان پروردگارِ عالَم کے حضور کھڑے ہوں گے تو کوئی اس حال تک پہنچا ہوا ہو گا کہ کانوں کی لَو تک اپنے پسینے میں غرق ہو گا۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ویل للمطفّفین، باب یوم یقوم الناس۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۹۳۸)
(3)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی:مجھے خبر دیجئے کہ قیامت کے اس دن کھڑے ہونے پر کون قدرت رکھے گا جس کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ ’’یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جس دن سب لوگ رب العالمین کےحضور کھڑے ہوں گے۔
رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ وہ دن مومن پر ہلکا کردیا جائے گا حتّٰی کہ اس پر ایک فرض نماز کی طرح ہوجائے گا ۔( مشکاۃ المصابیح ، کتاب احوال القیامۃ و بدء الخلق ، باب الحساب و القصاص والمیزان، الفصل الثالث، ۲ / ۳۱۷، الحدیث: ۵۵۶۳)
اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو قیامت کے دن کی شدّتوں اور حساب کی سختیوں سے پناہ مانگنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔