Home ≫ ur ≫ Surah Al Qalam ≫ ayat 44 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِؕ-سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ(44)
تفسیر: صراط الجنان
{فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ: تو جو اس بات کو جھٹلاتا ہے اسے مجھ پر چھوڑ دو۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کو قیامت کے دن کی ہَولناکی کا خوف دلایا اور اب انہیں ڈر سنانے میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے عذاب سے ڈرایا اور اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آخرت میں کفار کا حال یہ ہو گا تو جو اس قرآنِ مجید کو جھٹلاتا ہے اس کے معاملے کو مجھ پر چھوڑ دیں ، میں اسے سزا دوں گا اورآپ اس کے معاملے میں اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں ۔ قریب ہے کہ ہم کفار کو آہستہ آہستہ اپنے عذاب کی طرف وہاں سے لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے باوجود انہیں صحت اور رزق سب کچھ ملتا رہے گا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے رزق کو گناہوں میں زیادتی کا ذریعہ بنا لیں گے اور ہم انہیں اِستغفار اور توبہ کرنا بھلا دیں گے ،یوں رفتہ رفتہ عذاب ان کے قریب ہوتاجائے گا۔( تفسیر کبیر ، القلم ، تحت الآیۃ : ۱۰، ۱۰ / ۶۱۵، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۱۲۷۰، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۴۴، ۴ / ۳۰۱، ملتقطاً)
نافرمانیوں کے باوجود نعمتیں ملنا اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر بھی ہوسکتی ہے:
اس سے معلوم ہوا کہ نافرمانیوں کے باوجود دنیا کی نعمتیں ملتی رہنا بلکہ ان میں مزید اضافہ ہونا اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کی بجائے اس کی کوئی خفیہ تدبیر بھی ہو سکتی ہے۔ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ‘‘(انعام:۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں ۔
اورحضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم یہ دیکھو کہ بندے کے گناہوں پر قائم ہونے کے باوجود اللّٰہ تعالیٰ اسے ا س کی پسند کی دُنْیَوی نعمتیں عطا کر رہا ہے تو(جان لو کہ )یہ اس کے حق میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اِستدراج (یعنی خفیہ تدبیر) ہے۔( مسند امام احمد،مسند الشامیین،حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی عن النبیصلی اللّٰہ علیہ وسلم،۶ / ۱۲۲،الحدیث:۱۷۳۱۳)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اسے جب بھی کوئی نعمت ملے تو ا س پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اگر اس سے کوئی گناہ سَرزَد ہو جائے تو توبہ و اِستغفار کرنے میں دیر نہ کرے۔