Home ≫ ur ≫ Surah Al Qiyamah ≫ ayat 17 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ(17)فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِـعْ قُرْاٰنَهٗ(18)ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗﭤ(19)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ: بیشک اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔} اس آیت سے 3 باتیں معلوم ہوئیں،
(1)… درحقیقت قرآن کو جمع فرمانے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے کہ اس نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سینۂ مبارک میں قرآنِ کریم کو ترتیب وار جمع فرمایا۔
(2)… حضورپُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کے حافظ ، قاری ، عالِم اور صاحبِ اَسرار ہیں کسی مخلوق کے شاگرد نہیں ۔
(3)… حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے درمیان پیغام رَساں ہیں نہ کہ حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے استاد ہیں ۔
{فَاِذَا قَرَاْنٰهُ: تو جب ہم اسے پڑھ لیں ۔} اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ کا حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے پڑھنے کو اپنی طرف منسوب کرنا ان کی عظمت و شرافت کی دلیل ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کئی کام بھی اپنی طرف منسوب کئے ہیں جیسا کہ بیعتِ عقبہ میں نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے 70 اَنصاری صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے میں خریدے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ‘‘(توبہ:۱۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللّٰہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے۔
اور بیعتِ رضوان کے موقع پر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بیعت لی اور ان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ‘‘(فتح:۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جولوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللّٰہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ، ان کے ہاتھوں پر اللّٰہ کا ہاتھ ہے۔
اورجنگ ِبدر میں حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفّار کی طرف کنکریاں پھینکی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى‘‘(انفال:۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے حبیب!جب آپ نے خاک پھینکی تو آپ نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللّٰہ نے پھینکی تھی۔
{ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ: پھر بیشک اسے بیان فرمانا ہمارے ذمہ ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قرآن کے معانی اور اَحکام میں سے جس چیز کو سمجھنا آ پ کو مشکل لگے تو اسے بیان کرنا اور اس کی باریکیوں کو ظاہر فرمانا ہمارے ذمہ ہے۔( روح البیان،القیامۃ، تحت الآیۃ: ۱۹،۱۰ / ۲۴۸)
آیت ’’ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے3 مسئلے معلوم ہوئے:
(1)… قرآن کا بیان قرآن نازل ہونے سے کچھ دیر بعد بھی ہوسکتا ہے۔
(2)… حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام صرف قرآن کے الفاظ لاتے تھے اور قرآن کے معانی ، اس کے اَحکام اور اَسرار بلاواسطہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا ہوتے تھے۔
(3) …حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا واسطہ اللّٰہ تعالیٰ سے سیکھنے والے ہیں لہٰذا دنیا میں کوئی آپ جیسا عالِم نہیں ہوسکتا کیونکہ سب لوگ مخلوق سے علم حاصل کرتے ہیں جبکہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خالق سے علم حاصل کیا۔